4) ۔۔۔﴿ وَلَا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّىٰ يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِيَاطِ ۔۔۔ ﴾ (سورة الاعراف: 40)
"اور نہ وہ لوگ کبھی جنت میں جائیں گے یہاں تک کہ اونٹ سوئی کے ناکہ کے اندر سے نہ چلا جائے۔‘‘
5) ۔۔۔﴿ وَمَن يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا ۔۔۔ ﴾ (سورة النساء: 93)
"اور جو کوئی کسی مومن کو قصدا قتل کر ڈالے، اس کی سزا دوزخ ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا۔‘‘
6) ۔۔۔﴿ وَمَن يَعْصِ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ فَإِنَّ لَهُ نَارَ جَهَنَّمَ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ﴿٢٣﴾ (سورة الجن: 23)
"اور جو لوگ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی نافرمانی کریں ان کے لئے دوزخ کی آگ (تیار) ہے وہ ہمیشہ اس میں رہیں گے۔‘‘
ان آیات کے علاوہ مزید دوسری آیاتِ کریمہ میں بھی مفہوم پایا جاتا ہے۔
نیز صحیحین میں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
يجاء الموت في صورة كبش املح فيوقف بين الجنة والنار ويقال يا اهل النار خلود فلا موت (مسلم 4؍2188 (اختصارا))
"موت کو ایک سفید اور سیاہ رنگت کے مینڈھے کی صورت میں لایا جائے گا اور جنت و دوزخ کے مابین کھڑا کر کے پکارا جائے گا، اے جنت والو! (تمہیں یہاں) ہمیشہ رہنا ہے اور موت نہیں آئے گی، اور اے دوزخ والو! (تمہیں بھی یہاں) ہمیشہ رہنا ہو گا اور موت نہیں آئے گی۔‘‘
اور اسی طرح قتل وغیرہ جیسے کبیرہ گناہوں کی سزا میں بھی صحیح احادیث سے " في نار جهنم خالدا مخلدا فيها ابدا " کے الفاظ ثابت ہیں۔ ان تمام آیات و احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ کفار کو دوزخ میں لامتناہی اور دائمی عذاب ہو گا۔ جس آیت یا حدیث سے اس کے مخالف مفہوم ذہن میں آتا ہو اس کے معنی میں تاویل کی گئی ہے جیسا کہ آیت ذیل سے مترشح ہے:
|