زَوْجِى أَبُو زَرْعٍ، فَمَا أَبُو زَرْعٍ؟ أَنَاسَ مِنْ حُلِىٍّ أُذُنَىَّ
’’ میرا شوہر ابو زرع ہے اور ابو زرع کیا خوب شخص ہے، اس نے زیورات سے میرے دونوں کانوں کو بھاری کر دیا اور ہلا کے رکھ دیا ہے۔‘‘ (فتح الباری 9؍317)
پھر اختتام حدیث پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ:
قَالَ رَسُولُ اللَّه صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: كُنْتُ لَكِ كَأَبِي زَرْعٍ لأُمِّ زَرْعٍ. انتهي ما في فتح الباري (انتھی ما فی فتح الباری 9؍317 و صحیح مسلم 4؍1901)
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تیرے لئے ایسے ہوں جیسے ابو زرع ام زرع کے لئے تھا۔‘‘
سو ابو زرع کے قصہ سے صاف ظاہر ہوا کہ اس مرد مخیر، صاحب ثروت اور صاحب دولت نے ام زرع کے دونوں کانوں میں سونے و چاندی کی بالیاں بنوا کر دی تھیں، بلکہ یہ مقام مدح و زینت، سونے کے زیور کے اہتمام کا مقتضی ہے۔ اور ہر صاحب ثروت چاندی کے زیور کو معیوب سمجھتا ہے خصوصا جبکہ زیور کان کا ہو۔ اسی بنا پر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس سونے کی انگوٹھیاں تھیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ذات مبارک کو ابو زرع کے ساتھ تشبیہ دی ہے۔
اور امام نووی جملہ أَنَاسَ مِنْ حُلِىٍّ أُذُنَىَّ کے تحت رقمطراز ہیں:
معناه حلابي قرطة وشنوفا فهي تنوس اي تتحرك لكثرتها، انتهي كلام الشارح، وفي رواية ابن السكت: “اذني و فرعي” وفرعا الانسان يداها، والحلي حينئذ يعم القرط والشنف والسوار والمعضد، وتنكير حلي و شحم للتكثير كله من الفائق. (مسلم 2؍288 طبع کراچی)
’’اس کا یہ معنی ہے کہ اس نے مجھے بالیاں اور کانوں کا زیور اس قدر پہنایا ہے کہ وہ اس کے بوجھ سے جھولتے رہتے ہیں۔ اور
|