’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز پڑھتے اور میں بیدار ہوتی تو مجھ سے گفتگو کرتے، وگرنہ لیٹ جاتے تا آنکہ نماز کے لئے اذان دی جاتی۔‘‘
معلوم ہوا کہ اس فعل کو فرض یا واجب کہنا صحیح نہیں ہے اور بدعت کہنا بھی درست نہیں ہے، بلکہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ترک بھی ثابت ہے تو واجب یا فرض کیونکر ہو سکتا ہے واجب و فرض کا ترک تو ناجائز ہے۔ چنانچہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے عدم وجوب پر ایک باب قائم کیا ہے کہ:
(باب "من تحدث بعد الركعتين فلم يضطجع" ... أشار بهذه الترجمة الى انه صلى الله عليه وسلم لم يكن يداوم عليها. وبذلك احتج الأئمة على عدم الوجوب، وحملوا أمر الوارد بذلك في حديث أبي هريرة عند ابى داود وغيره على الاستحباب) (فتح الباری 3؍43، ابوداود 1؍179)
’’جو کوئی فجر کی دو سنتوں کے بعد گفتگو کرے اور نہ لیٹے‘‘ اس ترجمہ الباب سے یہ ثابت کیا ہے کہ آپ اس فعل پر دوام اختیار نہیں کرتے تھے، اس سے ائمہ کرام نے عدم وجوب پر دلیل لی ہے اور اس ضمن میں ابوداؤد اور اس کے علاوہ سے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث سے ’’امر‘‘ منقول ہے۔ جسے استحباب پر محمول کیا ہے۔ (فتح الباری)
سو ابوداؤد وغیرہ میں جو بصیغہ امر ارشاد فرمایا ہے اس امر سے استحباب مراد لینا ہی لازم آتا ہے، ورنہ حدیث ماقبل سے تطبیق ممکن نہ ہو گی۔
اور اسی طرح جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ فعل ثابت ہے تو بدعت کیونکر ہو سکتا ہے اور جن بزرگانِ دین سے اس فعل کا انکار ورد ثابت ہے اس کی وجہ یہ
|