والحمص وغيرهما، والصواب ما قاله الدارمى ان الاعتماد على الكيل بصاع مغاير بالصاع الذى كان يخرج به فى عصر النبى صلى الله عليه وسلم ومن لم يجده لزمه اخراج قدر تيقن انه لا ينقص عنه و على هذا فالتقدير بخمسة ارطال و ثلث تقريبا) (عون الباری لحل ادلۃ البخاری) (الروضۃ الندیۃ 1؍217، عون الباری 570 طبع بھوپال)
’’کبھی صاع کا رطل کے ساتھ توازن مشکل ہو جاتا ہے پس جس صاع سے صدقۂ فطر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ادا کیا جاتا تھا وہ ایک معروف پیمانہ ہے اور اس کے وزن کی مقدار میں جنس کی تبدیلی سے اختلاف ہو جاتا ہے جیسا کہ مکئی اور چنا وغیرہ۔ بہتر رائے امام دارمی رحمہ اللہ کا قول ہے کہ صاع کے معاملہ میں ماپنے کے لئے اعتماد اس متبادل صاع پر کیا جائے گا جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں متداول تھا، البتہ عدم دستیابی کی صورت میں انداز پانچ رطل اور ایک تہائی (5-1/3) ہو گا۔‘‘
اور بعض علماء نے کہا ہے کہ صاع چار لپ یعنی متوسط آدمی کے چار بُک ہیں جو مجرب ہے۔ سو یہی صحیح اور صاع رسول کے موافق ہوا۔ (کذا فی القاموس و حکاہ النووی ایضا فی الروضۃ) اور اہل پنجاب اس امر میں بہت اچھے ثابت ہوئے ہیں کیونکہ ان کے ہاں پیمانہ ’’مد‘‘ کی مانند پڑوپی ہے اور’’صاع‘‘ کی مانند ٹوپہ ہے اور وہ اسی پر ہی اجراء احکام کرتے ہیں۔
فقط والله اعلم بالصواب واليه المرجع والمآب۔
حررہ العاجز ابو محمد عبدالوھاب الفنجابی الجھنگوی ثم الملتانی نزیل الدھلی تجاوز اللہ عن ذنبہ الخفی والجلی، فی اواخر شھر اللہ الذی انزل فیہ القرآن۔ 1305ھ
|