Maktaba Wahhabi

122 - 386
کرو لیکن اس کا سر منڈواؤ اور اس کے بالوں کے برابر چاندی صدقہ کرو پھر حضرت حسین رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے تو انہوں نے وہی عمل دہرایا۔‘‘ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے عقیقہ کرنے سے جو منع فرمایا تھا وہ اس لئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا عقیقہ کر دیا تھا، جیسا کہ گزشتہ حدیث میں گزر چکا ہے۔ قوله "لا تعقى عنه" قيل يحمل هذا على انه قد كان صلى الله عليه وسلم عق عنه وهذا متعين لما قدمنا فى رواية الترمذى والحاكم عن على رضى الله عنه۔ (نیل الاوطار 5؍145) ’’ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ اس کا عقیقہ نہ کرو یہ اس پر محمول ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا عقیقہ خود کر دیا تھا اور یہ تطبیق ترمذی اور حاکم کی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی روایت سے کی گئی ہے۔ عن عمرو بن شعيب عن ابيه عن جده ان النبى صلى الله عليه وسلم امر بتسمية المولود يوم سابعه ووضع الاذى عنه والعق۔ رواه الترمذى وقال: حديث حسن غريب ۔(نیل الاوطار 5؍143، منتقیٰ 2؍312) ’’حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ساتویں روز نومولود کے نام رکھنے، سر منڈانے اور عقیقہ کرنے کا حکم دیا۔‘‘ اور عقیقہ کی مناسبت سے یہ بھی ہے کہ بچہ پیدا ہونے کے روز داہنے کان میں اذان کہنی چاہیے اس میں لڑکی اور لڑکے کا ایک حکم ہے۔
Flag Counter