Maktaba Wahhabi

99 - 512
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی استطاعت وطاقت بھر معقول اسباب کو اختیار کیا… اور پھر اللہ کی کرم نوازیاں شامل حال ہوئیں۔[1] اسباب کو اختیار کرنا امر ضروری اور واجب ہے لیکن اس سے ہمیشہ نتائج کا حصول لازم نہیں کیونکہ نتائج کا تعلق اللہ رب العالمین کے امر اور مشیت سے ہے، اس لیے توکل انتہائی ضروری ہے اور یہ اسباب کی تکمیل میں داخل ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام اسباب ووسائل کو اختیار کیا لیکن پھر بھی اسی وقت اللہ سے دعا جاری رکھی کہ اللہ تعالیٰ اس کوشش کو کامیابی سے ہمکنار فرمائے، پھر دعا قبول ہوئی اور کامیابی سے ہمکنار ہوئے۔[2] ثالثًاً: فن سپاہ گری میں صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی اعلیٰ مہارت اور خوشی ومسرت سے رونا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت کا اثر ابوبکر رضی اللہ عنہ کی فن سپاہ گری میں نمایاں ہے، چنانچہ جس وقت انہوں نے ہجرت کا ارادہ کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اپنی معیت کی بشارت سناتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’جلدی مت کرو، اللہ تمہیں ساتھی عطا کرے گا۔‘‘ اسی وقت سے ہجرت کی تیاری اور منصوبہ بندی میں لگ گئے، دو اونٹنیاں خرید کر اسی وقت سے اپنے گھر میں پالنا شروع کر دیں۔ صحیح بخاری کی روایت میں ہے کہ ’’چار ماہ تک ببول کے پتے کھلا کھلا کر ان دونوں کو پالا‘‘ آپ کی تربیت ہی قیادت کے لیے ہوئی تھی، آپ نے اپنی دور رس نگاہ سے اس بات کا اندازہ کر لیا تھا کہ ہجرت دشوار گذار اور اچانک پیش آئے گی اس لیے اس کے لیے وسائل واسباب تیار کیے، اپنے خاندان کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کے لیے مسخر کر دیا اور جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آکر ہجرت کی خوشخبری سنائی تو خوشی ومسرت سے رونے لگے۔ چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: آج سے قبل مجھے یہ پتہ نہیں تھا کہ کوئی خوشی ومسرت میں بھی روتا ہے۔ یہ انسانی خوشی کی انتہا ہے کہ خوشی رونے میں تبدیل ہو جائے۔ شاعر نے کیا خوب کہا ہے: ورد الکتاب من الحبیب بانہ سیزورنی فاستَعْبَرْت أجفانی ’’محبوب کا نامہ آیا کہ وہ عنقریب میری زیارت کو آئے گا، یہ مژدہ سن کر میری آنکھیں اشکبار ہو گئیں۔‘‘ غلب السرور عَلَیَّ حتی اننی مِنْ فَرْط ما قد سرَّنی أبکانی ’’خوشی ومسرت کا مجھ پر اس قدر غلبہ ہوا کہ فرط مسرت میں رو پڑا۔‘‘
Flag Counter