Maktaba Wahhabi

395 - 512
دورِ صدیقی کی فتوحات تمہید: امت اسلامیہ کے وجود کا بنیادی مقصد اللہ تعالیٰ کی توحید اور کامل عبودیت کو زندگی میں نافذ کرنا ہے۔ ارشاد الٰہی ہے: وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (الذاریات: ۵۶) ’’میں نے جنات اور انسانوں کو محض اسی لیے پیدا کیا ہے کہ وہ صرف میری عبادت کریں۔‘‘ جب انس وجن کی تخلیق کا بنیادی مقصد اللہ وحدہ لا شریک کی عبادت کرنا ہے تو اس کا لازمی تقاضا ہے کہ امت مسلمہ اس مقصد کو پورا کرنے کی کوشش کرے اور اس امانت کو تمام لوگوں تک پہنچانے کی ذمہ داری نبھائے، لوگوں کو اللہ کی طرف دعوت دے اور اللہ کے منہج پر لوگوں کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کرے اور اس امانت کو لوگوں تک پہنچانے میں جو رکاوٹیں سامنے آئیں ان کو دور کرے۔ اس طرح شریعت الٰہی کی سیادت تمام بنی نوع انسان پر عام ہوگی، سب کے سب اللہ تعالیٰ کی حاکمیت مطلقہ کے تابع ہوں گے۔ بایں طور کہ سب کے سب اللہ کی شریعت کے اتباع میں زندگی بسر کریں گے۔[1] چنانچہ اللہ تعالیٰ نے جہاد کو مشروع قرار دیا تاکہ دین فطرت کے سننے اور ماننے سے جو چیزیں مانع ہوں ان کو زائل کیا جائے۔ علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’جب مشروع قتال ’’جہاد‘‘ ہے تاکہ دین اللہ کا ہو اور اللہ کا کلمہ بلند ہو، تو جو اس سے روکے اس سے باتفاق مسلمین قتال کیا جائے گا۔‘‘[2] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تبلیغِ دعوت الی اللہ کی ذمہ داری کو ادا فرمایا چنانچہ آپ نے بادشاہان عالم، زعماء وقائدین کے نام خطوط لکھے اور سفراء کو روانہ کیا۔ انسانی ضرورتیں اور جاہلی عادات، نفسیاتی موانع اور مادی رکاوٹیں جو اسلام کو سننے اور سمجھنے سے مانع تھیں انہیں ختم کرنے اور راستہ سے ہٹانے کے لیے افواج روانہ کیں۔ بلکہ بذات خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض جنگی مہمات اور غزوات کی قیادت کی۔ آخری غزوہ غزوئہ تبوک تھا جو ۹ہجری میں پیش آیا۔ ان تمام معرکوں اور غزوات میں لوگوں کو تین چیزوں کے درمیان اختیار دیا گیا کہ جس کو چاہیں اختیار کر
Flag Counter