کہ میں بنو اسد سے اس لیے جہاد نہ کروں کہ وہ ہمارے حلیف رہے ہیں ایسا ہرگز نہ کروں گا۔ خالد رضی اللہ عنہ نے عدی رضی اللہ عنہ سے فرمایا: دونوں گروہوں میں سے جس سے بھی لڑو جہاد ہے۔ اپنی قوم کی مخالفت مت کیجیے، آپ دونوں میں سے جس سے چاہیں قتال کریں اور اپنی قوم کو اس گروہ کے مقابلہ میں لے جائیں جس سے قتال کرنے میں وہ زیادہ ولولہ مند ہوں۔[1] یہاں عدی رضی اللہ عنہ کا اپنی قوم کے مؤقف سے انکار کرنا ان کی ایمانی قوت اور علم کی گہرائی کی دلیل ہے کیونکہ انہوں نے اولیاء اللہ سے دوستی کی اگرچہ وہ حسب ونسب میں ان سے دور تھے اور اعداء اللہ سے براء ت کا اظہار کیا اگرچہ وہ ان کے اقارب میں سے تھے۔[2] اور اسی طرح اس سے خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی جنگی مہارت نمایاں ہوتی ہے کہ انہوں نے عدی رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ اپنی قوم کی مخالفت نہ کریں جب کہ وہ بنو اسد سے ان کے حلیف ہونے کی وجہ سے لڑنا نہیں چاہتے بلکہ وہ انہیں جہاد کے اس محاذ پر لے جائیں جہاں وہ لڑنے میں زیادہ ولولہ مند ہوں۔[3] عدی رضی اللہ عنہ کا یہ عظیم کارنامہ ہے کہ انہوں نے اپنی قوم کو اسلامی فوج میں شمولیت کی دعوت دی۔ بنوطے کی لشکر خالد میں شمولیت دشمن کی پہلی شکست تھی کیونکہ قبیلہ طے کا شمار جزیرہ عرب کے قوی ترین قبائل میں ہوتا تھا۔ دیگر قبائل ان کو اہمیت دیتے تھے، ان کی طاقت و قوت کا اعتبار تھا، ان سے خوف کھاتے تھے، اپنے علاقہ میں ان کو عزت و غلبہ حاصل تھا، پڑوسی قبائل ان کے حلیف بننے کے لیے کوشاں رہتے تھے۔ جب دشمن میں کمزوری سرایت کر گئی تو ایمان و کفر کی افواج آپس میں ٹکرا گئیں، اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لیے فتح و نصرت مقدر کر دی، جلد ہی وہ دشمن کو قتل کرنے لگے اور قیدی بنانے لگے۔ یہاں تک کہ دشمن کو تباہ کر دیا ان کا قائد طلیحہ بھاگ کھڑا ہوا۔ ان میں سے وہی بچ سکا جس نے اطاعت قبول کر لی یا بھاگ کھڑا ہوا۔ اس واقعہ کے بعد جزیرۂ عرب کے مرتدین میں ضعف پھیل ہو گیا اور پھر اسلامی فوج کو دوسرے مقامات میں مرتدین کو شکست دینے میں کسی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑا۔[4] طلحہ اسدی کی شکست کے اسباب: طلیحہ اسدی کی شکست کے مختلف اسباب تھے: ۱: مسلمان راسخ عقیدہ، نصرت الٰہی کے یقین اور شہادت کی محبت وشوق میں قتال کر رہے تھے۔ اللہ کی راہ میں موت کی محبت انتہائی تیز معنوی اسلحہ ہے۔ خالد رضی اللہ عنہ دشمن کو یہ مختصر کلمات بھیجتے رہتے کہ میں ایسے لوگوں کو تمہارے مقابلہ میں لے کر آیا ہوں جنہیں موت اتنی ہی محبوب ہے جتنی تمہیں زندگی محبوب ہے۔[5] دشمن |
Book Name | سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | شمیم احمد خلییل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 512 |
Introduction |