Maktaba Wahhabi

79 - 512
تجزون بہ۔)) [1] ’’اے ابوبکر!کیا تمہیں تکلیف نہیں لاحق ہوتی ہے؟ کیا تم کو حزن وغم نہیں پہنچتا ہے؟ کیا تمہیں رنج وسختی نہیں پہنچتی ہے؟ اس طرح تم کو سزا مل جاتی ہے۔‘‘ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بعض آیات کی تفسیر بھی بیان فرمائی ہے۔ جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد: إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّـهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنتُمْ تُوعَدُونَ ﴿٣٠﴾ (فصلت: ۳۰) ’’(واقعی) جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا پروردگار اللہ ہے، پھر اس پر قائم رہے ان کے پاس فرشتے (یہ کہتے ہوئے) آتے ہیں کہ تم کچھ بھی اندیشہ اور غم نہ کرو، (بلکہ) اس جنت کی بشارت سن لو جس کا تم وعدہ دیے گئے ہو۔‘‘ اس آیت کریمہ کی تفسیر بیان کرتے ہوئے ابوبکر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: یعنی انہوں نے ایمان سے سر مو دائیں اور بائیں التفات نہ کیا اور نہ اپنے دلوں کے ساتھ غیر اللہ کی طرف متوجہ ہوئے، نہ محبت کے ساتھ اور نہ خوف کے ساتھ، نہ رجا وامید اور نہ سوال، اور توکل کے ذریعہ سے۔ بلکہ اللہ ہی سے محبت کرتے ہیں، اس کے ساتھ کسی شریک سے محبت نہیں کرتے، صرف اسی سے محبت کرتے ہیں۔ نہ کسی نفع طلبی کی خاطر اور نہ کسی نقصان کے دور کرنے کی خاطر۔ اللہ کے سوا کسی سے خوف نہیں کھاتے، چاہے کوئی بھی ہو، اور نہ اللہ کے سوا کسی کے سامنے دست سوال دراز کرتے ہیں اور نہ ا للہ کے سوا کسی کی طرف اپنے دلوں سے راغب ہوتے ہیں۔[2] اس طرح دیگر آیات کی تفسیر بھی آپ سے وارد ہے۔ علماء ومبلغین کو ہمہ وقت قرآن کی صحبت میں رہنا چاہیے، اس کی تلاوت کریں اور اس میں غور و فکر اور تدبر کریں، اس کے علوم ومعارف اور خزانہ حکمت ومعرفت کو نکال کر لوگوں کے سامنے پیش کریں، اور قرآن میں جو علمی، تشریعی اور بیانی اعجاز ہے اس کو بیان کریں، اور حروب ومصائب میں گرفتار انسانیت کی نجات کا جو راستہ اللہ تعالیٰ نے اس کتاب حکیم کے اندر بیان کیا ہے اسے لوگوں کے سامنے عصری اسلوب میں پیش کریں، اور دور حاضر کے ترقی یافتہ وسائل دعوت واعلان کو اختیار کریں۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اس بات کا بخوبی علم تھا کہ مسجد میں قریش کے سامنے قرآن کریم کی تلاوت دعوت الی اللہ کا مؤثر ذریعہ ہے۔[3]
Flag Counter