Maktaba Wahhabi

78 - 512
ابوبکر رضی اللہ عنہ جیسا زندہ احساس اور بیدار فکر کا مالک انسان ہو تو یہ قرآن اس کو اخروی زندگی اور اس میں ہونے والے حساب وکتاب، عقاب و ثواب کی یاد دلاتا ہے۔ جس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ جسم پر خشوع اور لرزہ طاری ہوتا ہے، آنکھیں اشکبار ہو جاتی ہیں اور یہ منظر مشاہدہ کرنے والوں کو متاثر کیے بغیر نہیں رہتا۔ اسی لیے مشرکین ابوبکر رضی اللہ عنہ کے اثر انگیز منظر سے پریشان ہو گئے اور ان کو اپنی عورتوں اور بچوں کی فکر لاحق ہو گئی کہ کہیں وہ اس سے متاثر ہو کر اسلام میں داخل نہ ہو جائیں۔[1] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیر نگرانی آپ کی تربیت ہوئی تھی، آپ نے قرآن کو حفظ کیا، اپنی زندگی میں اس کو عملی جامہ پہنایا اور انتہائی غور و فکر کیا، اور بغیر علم کے آپ کوئی بات نہ کرتے، جب آپ سے ایک آیت سے متعلق دریافت کیا گیا جس کو آپ نہیں جانتے تھے تو آپ نے فوراً فرمایا: ’’کون سی زمین مجھے جگہ دے گی اور کون سا آسمان مجھے سایہ دے گا، جب کہ میں کتاب الٰہی سے متعلق ایسی بات کہوں جو اللہ کا مقصود نہیں ہے؟‘‘[2] قرآن کریم کے اندر تدبر و تفکر پر دلالت کرنے والے اقوال میں سے آپ کا یہ قول ہے: ’’اللہ تعالیٰ نے اہل جنت کا ذکر کیا تو ان کے اچھے اعمال کا تذکرہ کیا اور ان کے گناہوں کو معاف کر دیا۔ بندہ کہتا ہے: ان لوگوں میں ہمارا شمار کیسے ہو سکتا ہے؟ تو کہنے والا کہتا ہے: میں ان میں سے نہیں ہوں، حالانکہ وہ انھی میں سے ہوتا ہے۔‘‘[3] قرآن کی جس آیت سے متعلق آپ کو اشکال پیدا ہوتا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑے ادب و احترام کے ساتھ دریافت کرتے، چنانچہ جب یہ آیت نازل ہوئی: لَّيْسَ بِأَمَانِيِّكُمْ وَلَا أَمَانِيِّ أَهْلِ الْكِتَابِ ۗ مَن يَعْمَلْ سُوءًا يُجْزَ بِهِ وَلَا يَجِدْ لَهُ مِن دُونِ اللَّـهِ وَلِيًّا وَلَا نَصِيرًا﴿١٢٣﴾ (النساء: ۱۲۳) ’’حقیقت حال نہ تو تمہاری آرزو کے مطابق ہے اور نہ اہل کتاب کی امیدوں پر موقوف ہے۔ جو برا کرے گا اس کی سزا پائے گا اور اپنے لیے اللہ کے علاوہ کسی کو حامی ومددگار نہیں پائے گا۔‘‘ اس وقت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ آیت تو کمر توڑ ہے، ہم میں سے کون گناہ نہیں کرتا؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((یا ابا بکر! ألست تنصب؟ الست تحزن؟ ألست تصیبک اللأواء ؟ فذلک مما
Flag Counter