Maktaba Wahhabi

359 - 512
پر حملہ آور نہ ہو جائے؟ سالم رضی اللہ عنہ نے کہا: اگر ایسا ہو تو میں انتہائی برا حامل قرآن قرار پاؤں گا۔ زید بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا: لوگو! اپنے دانتوں سے پکڑو، دشمن پر ٹوٹ پڑو اور آگے بڑھو۔ پھر فرمایا: واللہ میں اس وقت تک کلام نہیں کروں گا جب تک اللہ انہیں شکست نہیں دیتا یا اللہ سے ملوں اور اپنی حجت اس کے سامنے پیش کروں۔ آخر کار جام شہادت نوش فرمایا۔ اور ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اے قرآن والو! قرآن کو اپنے افعال سے مزین کرو، پھر دشمن پر حملہ آور ہو کر ان کو پیچھے دھکیل دیا اور خود زخمی ہو گئے۔ اور خالد بن ولید رضی اللہ عنہ حملہ آور ہوئے اور دشمن کی صفیں چیرتے ہوئے آگے نکل گئے اور مسیلمہ سے قتال کے لیے آگے بڑھے اور اس تاک میں لگے رہے کہ مسیلمہ مل جائے اور اسے قتل کر دیں پھر واپس ہو کر دونوں افواج کے درمیان کھڑے ہو کر للکارا اور فرمایا: میں ولید کا بیٹا ہوں۔ میں عامر و زید کا بیٹا ہوں۔ پھر مسلمانوں کا شعار بلند کیا، اس معرکہ میں مسلمانوں کا شعار ((یا محمداہ)) [1] تھا۔ جو بھی مقابلہ کے لیے بڑھتا اس کو تہ تیغ کر دیتے، جو قریب آتا اس کو کھا جاتے۔ خالد رضی اللہ عنہ نے مہاجرین و انصار کو اعراب سے الگ کر رکھاتھا، ہر خاندان کا اپنا پرچم تھا جس کے گرد وہ ہوتے اور قتال کرتے تاکہ یہ معلوم رہے کہ خطرہ کدھر سے ہے۔ صحابہ کرام نے اس معرکے میں انتہائی صبر و استقامت کا ثبوت دیا اور برابر دشمن کی طرف بڑھتے رہے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے فتح عطا فرمائی اور کفار پیٹھ پھیر کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ صحابہ نے ان کا پیچھا کیا، ان کو جس طرح چاہا قتل کرتے رہے، تلواریں ان کی گردنوں پر چلاتے رہے یہاں تک کہ انہیں موت کے باغ میں پناہ لینے پر مجبور کر دیا۔ محکم بن طفیل ملعون نے انہیں اشارہ کیا کہ اس باغ میں داخل ہو جائیں۔ اسی باغ میں مسیلمہ کذاب ملعون موجود تھا۔ عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہما نے دیکھا محکم خطاب کر رہا ہے، اس پر تیر چلا کر قتل کر دیا۔ بنو حنیفہ نے باغ کا دروازہ بند کر لیا اور صحابہ نے چہار جانب سے اس باغ کا محاصرہ کر لیا۔[2] نادر دلیری براء بن مالک رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’مسلمانو! مجھے اٹھا کر باغ میں پھینکو۔‘‘ صحابہ نے ان کو ڈھالوں پر اٹھا لیا اور نیزوں سے بلند کر کے باغ میں کفار کے درمیان ڈال دیا وہ ان سے لڑتے ہوئے دروازے تک پہنچے اور دروازہ کھول دیا اور مسلمان دروازہ سے باغ میں داخل ہو گئے اور اندر پہنچ کر تمام دروازوں کو کھول دیا، اس طرح مرتدین مسلمانوں کے گھیرے میں آگئے۔ انہیں یقین تھا کہ اب بچ نہیں سکتے۔ حق آگیا اور باطل نیست و نابود ہو گیا۔[3]
Flag Counter