Maktaba Wahhabi

371 - 512
کے شعار ’’یامحمداہ‘‘ کے ذریعہ سے پکارا۔ جو بھی آپ کے مقابلہ میں بڑھتا اس کو قتل کر دیتے اور جو سامنے آتا اسے ختم کر دیتے۔[1] آپ کو ہمیشہ فتح ونصرت کی رغبت کے ساتھ شہادت کی تلاش میں رہتے۔ آیئے ہم خالد رضی اللہ عنہ کی زبانی ان کے ایک مقابلہ اور مبارزت کی روداد سنتے ہیں، جو یمامہ کی جنگ میں باغ کے اندر ان کے اور مسیلمہ کے ایک فوجی کے درمیان واقع ہوئی فرماتے ہیں: ’’بنو حنیفہ کے ایک شخص نے مجھے گلے سے لگایا جبکہ ہم دونوں گھوڑے پر سوار تھے۔ ہم دونوں اپنے گھوڑوں پر سے گر پڑے، پھر زمین پر ہم دونوں نے معانقہ کیا، میں نے اس کو خنجر سے مارا، اس نے مجھ پر خنجر سے وار کیا، اس طرح مجھ کو سات زخم آئے، میں نے اس کو ضرب کاری لگائی جس کی وجہ سے وہ میرے ہاتھ میں ڈھیلا ہو گیا اور میں زخم کی وجہ سے حرکت نہیں کر سکتا تھا، کافی خون نکل چکا تھا۔ لیکن الحمد للہ وہ موت میں مجھ سے سبقت لے گیا۔‘‘[2] خالد رضی اللہ عنہ نے بنو حنیفہ کی قوت اور بہادری کی شہادت دیتے ہوئے فرمایا: ’’میں بیس بڑے معرکوں میں شریک رہا لیکن یمامہ کے روز بنو حنیفہ سے بڑھ کر کسی کو تلوار چلانے والا اور تلوار کی مار پر صبر کرنے والا اور ثابت قدم نہیں پایا…… زخم کی وجہ سے مجھ میں حرکت نہ تھی۔ میں دشمن کے درمیان گھس گیا، یہاں تک کہ زندگی سے مایوس ہو گیا اور مجھے موت کا یقین ہو گیا۔‘‘[3] خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے قتل کی کوشش اور بنو حنیفہ کا وفد صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے قتل کی کوشش: جاہلیت کے بطلان اور کھوٹے پن کے واضح ہونے کے باوجود اس کو بہ سہولت چھوڑا نہیں جا سکتا کیونکہ پوری زندگی اسی میں گذری ہوتی ہے۔ اسی لیے جب حقیقت کا سامنا ہوتا ہے تو جاہلیت اپنے دفاع میں پوری بدخلقی کے ساتھ لگ جاتی ہے اور قتال کی تلوار اپنے ہاتھ سے اس وقت تک نہیں رکھتی جب تک بزور قوت اس کو نہ رکھوا لیا جائے۔[4] اس سے خاموشی اختیار نہیں کرتی بلکہ غداری اور بدعہدی جب بھی موقع ملے کر گزرتی ہے۔ سلمہ بن عمیر حنفی کا فعل اس کی صحت پر دلالت کرتا ہے۔ اس نے صلح کے بعد خالد رضی اللہ عنہ کے قتل کی کوشش کی، جب کہ خالد رضی اللہ عنہ نے بنو حنیفہ سے مصالحت کر لی تھی لیکن مسلمانوں کے سلسلہ میں کینہ و بغض کی وجہ سے اس نے خالد رضی اللہ عنہ
Flag Counter