کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرمایا: میرے بھانجے! تمہارے والد زبیر اور نانا ابوبکر رضی اللہ عنہما انھی لوگوں میں سے تھے۔ جب احد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کو جو لاحق ہونا تھا لاحق ہوا اور مشرکین واپس ہو گئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خطرہ لاحق ہوا کہ کہیں کفار پھر واپس نہ آجائیں۔ آپ نے صحابہ سے کہا: کون ان کے تعاقب میں نکلے گا؟ ستر صحابہ کرام تیار ہوئے، ان میں ابوبکر وزبیر رضی اللہ عنہما تھے۔[1] غزوئہ بنو نضیر، بنو مصطلق، خندق اور غزوہ بنو قریظہ میں الف۔ غزوئہ بنو نضیر میں: بنو عامر اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مابین معاہدہ تھا۔ عمرو بن امیہ رضی اللہ عنہ نے غلطی سے لا علمی میں بنو عامر کے دو افراد کو قتل کر دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان دونوں کے خون بہا کی ادائیگی میں تعاون کے لیے بنو نضیر کے یہاں تشریف لے گئے، کیونکہ معاہدہ کی رو سے یہ اعانت ان پر واجب تھی۔ بنو نضیر اور بنو عامر کے مابین بھی معاہدہ تھا، جب آپ ان کے پاس پہنچے اور خون بہا کی بات رکھی، انہوں نے تعاون کے سلسلہ میں آپ سے اپنی رضا مندی کا اظہار کیا اور کہا: ابوالقاسم ہم ویسا ہی کریں گے جیسا آپ چاہتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دیوار کے سایہ میں تشریف فرما ہوئے، ادھر یہود تنہائی میں جمع ہوئے اور آپس میں کہا: ایسا زرّیں موقع ہاتھ نہ آئے گا، کون ہے جو اس گھر کی چھت پر چڑھ جائے اور اوپر سے بھاری پتھر گرا کر کچل دے اور ہمیں ان سے نجات مل جائے؟ اس پر ایک بدبخت یہودی عمرو بن جحاش تیار ہوا اور کہا: میں یہ کارنامہ انجام دوں گا۔ پھر وہ اس گھر پر چڑھ گیا جس کی دیوار کے سایہ میں آپ تشریف فرما تھے، آپ کے ساتھ آپ کے صحابہ کی جماعت موجود تھی، جن میں ابوبکر و عمر اور علی رضی اللہ عنہم تھے۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہود کے ناپاک عزائم سے باخبر کر دیا، آپ تیزی سے اٹھے اور مدینے کے لیے چل پڑے۔ جب آپ کے آنے میں تاخیر ہوئی تو صحابہ رضی اللہ عنہم آپ کی تلاش میں نکل پڑے راستے میں مدینہ سے آنے والے ایک آدمی سے ملاقات ہوئی، اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق دریافت کیا تو اس نے بتایا میں نے آپ کو مدینہ میں داخل ہوتے ہوئے دیکھا، پھر صحابہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یہودیوں کی سازش وغداری کی اطلاع دی۔ مدینہ واپس آکر آپ نے فوراً ہی محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کو بنو نضیر کے پاس روانہ فرمایا اور انہیں یہ نوٹس دیا کہ تم لوگ مدینہ سے نکل جاؤ اب تم یہاں نہیں رہ سکتے۔ ادھر منافقین نے کہلا بھیجا کہ اپنی جگہ برقرار رہو، ڈٹ جاؤ، ہم تمہاری مدد کریں گے، اس سے ان کی ہمت بڑھ گئی۔ حی بن اخطب اکڑ گیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہلا بھیجا کہ ہم نہیں نکلیں گے، آپ کو جو کرنا ہے کر لیں، اور معاہدہ کے توڑنے کا اعلان کر دیا۔ اس صورت حال میں |
Book Name | سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | شمیم احمد خلییل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 512 |
Introduction |