Maktaba Wahhabi

113 - 512
اور تلوار کے زخم لگے تھے، آپ کی انگلی کٹ گئی تھی، ہم نے ان کی مرہم پٹی کی۔[1] اس غزوہ میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کا مقام ومرتبہ ابوسفیان کے اس موقف سے بھی واضح ہوتا ہے جبکہ اس نے پکار پکار کر سوال کرنا شروع کیا: کیا تم میں محمد ہیں؟ کیا تم میں محمد ہیں؟ کیا تم میں محمد ہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دینے سے صحابہ کو منع کر دیا۔ پھر اس نے کہا: کیا تم میں ابن ابی قحافہ ہیں؟ کیا تم میں ابن ابی قحافہ ہیں؟ کیا تم میں ابن ابی قحافہ ہیں؟ پھر کہا: کیا تم میں ابن خطاب ہیں؟ کیا تم میں ابن خطاب ہیں؟ کیا تم میں ابن خطاب ہیں؟ جب جواب نہیں ملا، تو اپنے ساتھیوں کی طرف متوجہ ہو کر کہا: یہ سب کے سب قتل کیے جا چکے ہیں…[2] مشرکین کے لیڈر ابوسفیان کو اس حقیقت کا اعتراف ویقین تھا کہ اسلام کے ستون و اساس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما ہیں۔[3] جب مشرکین نے مسلمانوں کو تباہ کرنے اور انہیں جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی کوشش کی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی منصوبہ بندی سامنے آئی اور ان کی سازشوں کو باطل کر دیا۔ احد سے فراغت کے بعد مدینہ پہنچ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اندیشہ ہوا کہ کہیں کفار مدینہ کی طرف پلٹ نہ آئیں۔ باوجودیکہ صحابہ کرام زخموں سے چور تھے اور احد میں شہید ہونے والے ساتھیوں کی وجہ سے دل گرفتہ اور مغموم و محزون تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مشرکین کا پیچھا کرنے پر ابھارا اور نکلنے کا حکم جاری کر دیا، اور صحابہ رضی اللہ عنہم آپ کے اس فرمان پر لبیک کہتے ہوئے کفار کے تعاقب میں نکل پڑے، مسلمانوںکا یہ قافلہ جب مدینہ سے آٹھ میل کے فاصلے پر واقع حمراء الاسد پر پہنچا تو مشرکین کو خوف محسوس ہوا اور مدینہ کی طرف لوٹنے کا ارادہ ترک کر کے مکہ روانہ ہو گئے۔ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے عروہ بن زبیر سے اس آیت کریمہ: الَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِلَّـهِ وَالرَّسُولِ مِن بَعْدِ مَا أَصَابَهُمُ الْقَرْحُ ۚ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا مِنْهُمْ وَاتَّقَوْا أَجْرٌ عَظِيمٌ ﴿١٧٢﴾ (آل عمران: ۱۷۲) ’’جن لوگوں نے اللہ اور رسول کے حکم کو قبول کیا اور اس کے بعد کہ انہیں پورے زخم لگ چکے تھے ان میں سے جنہوں نے نیکی کی اور پرہیزگاری برتی، ان کے لیے بہت زیادہ اجر ہے۔‘‘
Flag Counter