۴: امام بغوی نے قلم بند کیا ہے:
’’اَلْبَاقِيْ الدَّائِمُ عَلَی الْأَبَدِ۔‘‘[1]
’’وہ ہمیشہ ہمیشہ باقی رہنے والے ہیں۔‘‘
۵: امام ابن قیم لکھتے ہیں:
’’وَلَہُ الْحَیَاۃُ کَمَالُھَا فَلِأَجْلِ ذَا
ما لِلْمَمَاِت عَلَیْہِ مِنْ سُلْطَانِ‘‘[2]
[اُن ہی کے لیے [زندگی] اپنی انتہائی شکل میں ہے، اسی لیے ان پر موت کا بالکل غلبہ نہیں]۔
۶: حافظ ابن کثیر نے تحریر کیا ہے:
’’اَلْحيُّ فِيْ نَفْسِہٖ الَّذِيْ لَا یَمُوْتُ أَ بَدًا۔‘‘[3]
’’وہ فی نفسہٖ زندہ ہیں، جو کبھی بھی فوت نہیں ہوں گے۔‘‘
۷: قاضی ابوسعود نے لکھا ہے:
’’اَلْبَاقِيْ الَّذِيْ لَا سَبِیْلَ عَلَیْہِ لِلْمَوْتِ وَالْفَنَآئِ۔‘‘[4]
’’باقی رہنے والے، کہ ان پر موت و فنا نہیں۔‘‘
ب: وصفِ الٰہی [اَلْحَيُّ] والی دیگر آیات میں سے چار:
۱: {الٓمَّٓ۔ اَللّٰہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ الْحَیُّ الْقَیُّوْمُ}[5]
|