Maktaba Wahhabi

140 - 512
بیوی نے عرض کیا: کس وجہ سے آپ نے مہمانوں سے تاخیر کی؟ فرمایا: کیا ابھی تک انہیں کھانا نہیں دیا؟ بیوی نے کہا: انہوں نے آپ کے آئے بغیر کھانے سے انکار کیا، پیشکش کی گئی لیکن وہ نہ مانے۔ میں (عبدالرحمن) ڈر کر چھپ گیا۔ والد صاحب نے مجھے آواز دیتے ہوئے کہا: اے جاہل! اور سخت وسست کہا اور مہمانوں سے کہا: آپ لوگ تناول فرمائیں، واللہ میں نہیں کھاؤں گا۔ مہمانوں نے بھی قسم کھا لی کہ ہم اس وقت تک نہیں کھائیں گے جب تک ابوبکر نہیں کھاتے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: یہ شیطان کی طرف سے ہے، پھر کھانا منگوایا اور تناول فرمایا۔ عبدالرحمن کہتے ہیں: اللہ کی قسم ہم جو لقمہ اٹھاتے تھے اس کے نیچے اس سے زیادہ ہو جاتا تھا۔ مہمانوں نے آسودہ ہو کر کھانا تناول فرمایا اور کھانا پہلے سے زیادہ ہو گیا، آپ نے دیکھا تو پہلے سے زیادہ تھا۔ بیوی سے کہا: اے بنو فراس کی بہن یہ کیا ماجرا ہے؟ اس نے کہا: میری آنکھ کی ٹھنڈک! یہ پہلے سے تین گنا زیادہ ہے۔ پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کھایا اور فرمایا: یہ قسم شیطان کی طرف سے تھی۔ پھر اسے اٹھا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گئے اور وہ صبح تک آپ کے پاس رہا۔ ہمارے اور مشرکین کے درمیان معاہدہ تھا جس کی مدت ختم ہو چکی تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بارہ افراد کو عریف بنایا اور ہر ایک کے ساتھ ایک جماعت تھی اور اللہ کو خوب معلوم ہے کہ ہر ایک کے ساتھ کتنے لوگ تھے۔ تمام لوگوں نے آسودہ ہو کر وہی کھانا کھایا۔[1] درس وعبرت: اس قصہ میں بہت ساری نصیحتیں اور عبرتیں ہیں: ابوبکر رضی اللہ عنہ ان آیات و احادیث کو عملی جامہ پہنانے کے انتہائی حریص و شوقین تھے جو مہمان نوازی اور مہمانوں کی تکریم پر ابھارتی ہیں۔ جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: فَقَرَّبَهُ إِلَيْهِمْ قَالَ أَلَا تَأْكُلُونَ ﴿٢٧﴾ (الذاریات : ۲۷) ’’پھر ابراہیم نے بھنا ہوا بچھڑا مہمانوں کے سامنے پیش کیا اور کہا آپ لوگ کیوں نہیں کھاتے۔‘‘ ا ور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد: ((من کان یؤمن باللہ والیوم الآخر فلیکرم ضیفہ۔))[2]
Flag Counter