Maktaba Wahhabi

174 - 512
نہیں تھا کہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت بھی نازل فرمائی ہے، آپ کی تلاوت کے بعد ہر ایک اس کو لے اڑا اور ہر شخص اس کی تلاوت کرتا پھرتا تھا۔[1] ۳۔ سقیفہ بنی ساعدہ: جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا علم ہو گیا تو انصار صحابہ سقیفہ بنی ساعدہ میں جمع ہوئے، یہ دو شنبہ۱۲ ربیع الاوّل ۱۱ہجری تھا، جس روز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی۔ اس اجتماع میں مسئلہ خلافت پر گفتگو ہوئی۔[2] انصار، قبیلہ خزرج کے رہنما سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کے گرد جمع ہو گئے، انصار کے اس اجتماع کی خبر مہاجرین کو پہنچی، وہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس مسئلہ خلافت پر غور وخوض کرنے کے لیے جمع تھے کہ کون اس منصب کو سنبھالے۔[3] مہاجرین نے آپس میں کہا: آؤ اپنے انصار برادران کے پاس چلتے ہیں اس حق میں ان کا بھی حصہ ہے۔[4] عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ہم انصار کی طرف چل پڑے، جب ہم ان سے قریب پہنچے، ان میں سے دو صالح آدمیوں (عویم بن ساعدہ اور معن بن عدی) سے ملاقات ہوئی۔ ان دونوں نے انصار کے عزائم سے ان کو مطلع کیا، پھر سوال کیا: ’’آپ لوگ کہاں جا رہے ہیں؟‘‘ ہم نے کہا: ہم اپنے ان انصاری بھائیوں کے پاس جا رہے ہیں۔ ان دونوں نے کہا: ان کے پاس جانا ضروری نہیں۔ آپ لوگ خود معاملہ طے کر لیں۔ میں نے کہا: واللہ ہم ضرور ان کے پاس جائیں گے۔ ہم چلے یہاں تک کہ سقیفہ بنی ساعدہ میں ان کے پاس پہنچے۔ دیکھا ایک شخص کمبل میں لپٹا ہوا ہے۔ میں نے کہا: یہ کون ہیں؟ لوگوں نے جواب دیا: یہ سعد بن عبادہ ہیں۔ میں نے کہا: ان کو کیا ہو گیا ہے؟ لوگوں نے بتایا: ان کو بخار آرہا ہے۔ ہم وہاں تھوڑی دیر بیٹھے، اتنے میں ان کے خطیب نے اللہ کی حمدوثنا کے بعد اپنی بات شروع کرتے ہوئے کہا: ’’اما بعد! ہم اللہ کے انصار اور اسلام کے لشکر ہیں، اے مہاجرین! تم ایک مختصر سی جماعت ہو، تم میں سے کچھ لوگ اٹھے اور وہ یہ چاہتے ہیں کہ ہمیں خلافت سے بے دخل کر دیں۔‘‘
Flag Counter