Maktaba Wahhabi

383 - 512
راہ میں جہاد، ملامت گروں کی ملامت کی پروا نہ کرنا وغیرہ مذکورہ صفات یہ اللہ رب العالمین کا فضل وکرم ہیں جن کے ذریعہ سے اپنے اولیاء کو بزرگی عطا کرتا ہے اور جس کو چاہتا ہے مزید فضل وکرم سے نوازتا ہے کیونکہ اللہ کے فضل وکرم بے پایاں ہیں،[1] اللہ کا فضل بڑا وسیع ہے۔ کون اس کے مستحق ہیں اور کون اس کے مستحق نہیں ان کو خوب جانتا ہے۔[2] دور صدیقی میں اسلامی معاشرہ کے اوصاف: جب ہم خلافت راشدہ کے ابتدائی دور میں اسلامی معاشرہ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمارے سامنے مختلف خصائص آتے ہیں: ۱: یہ بالعموم ایک مسلم معاشرہ تھا، اسلام کے کامل معنی کے ساتھ۔ اللہ اور آخرت پر گہرا ایمان تھا۔ اسلامی تعلیمات کو واضح متانت وسنجیدگی اور لزوم کے ساتھ نافذ کیے ہوئے تھا۔ تاریخ کے اندر مختلف معاشرہ میں واقع ہونے والے گناہوں کے مقابلہ میں اس معاشرہ میں گناہوں کی تعداد بہت ہی کم تھی۔ دین ہی اس کی زندگی تھا۔ معمولی چیز نہ تھی کہ اس سے بسا اوقات استفادہ کر لیا جائے، بلکہ اس کی حیثیت حیات و روح کی تھی۔ صرف تعبدی شعائر کی حد تک نہیں کہ جس کی ادائیگی کا صحیح طریقہ سے اہتمام کیا جائے بلکہ ان کی اخلاقیات، تصورات، اہتمامات، قیم، معاشرتی روابط، خاندانی اور پڑوسی تعلقات، خرید و فروخت، طلب رزق، امانت، تعامل، غیر مستطیع کی کفالت، امر بالمعروف ونہی عن المنکر، حکام ووالیان کے اعمال کی نگرانی وغیرہ جیسے امور میں اس کا اہتمام اور نفاذ پایا جاتا تھا۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ معاشرہ کا ہر فرد اس صفت سے متصف تھا کیونکہ دنیا کی زندگی میں ایسا نہیں ہو سکتا، حتیٰ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معاشرہ میں بھی جیسا کہ قرآن نے بیان کیا ہے منافقین موجود تھے، جو اسلام کا اظہار کرتے تھے اور باطن میں دشمن تھے، ضعیف الایمان، ناکارہ، سست اور خائن بھی موجود تھے لیکن معاشرہ میں ان کا کوئی وزن نہ تھا اور نہ ان کے اندر معاشرہ کے دھارے کو پھیرنے کی طاقت تھی اور دور دورہ ان لوگوں کا تھا جو سچے مومن، اللہ کی راہ میں جان ومال سے جہاد کرنے والے اور دین حق کی تعلیمات کا التزام کرنے والے تھے۔[3] ۲: یہ ایک ایسا معاشرہ تھا جس میں امت کے حقیقی معنی بدرجہ اتم موجود تھے۔ امت مجرد انسانوں کا ایک مجموعہ نہیں جنہیں زبان، زمین اور مصالح نے اکٹھا کر دیا ہو۔ یہ تو جاہلیت کے روابط ہیں۔ ان کی اساس پر اگر کوئی امت وجود پذیر ہوتی ہے تو وہ جاہلی امت ہے۔ ربانی معنی میں امت وہ ہے جو عقیدہ کی اساس پر وجود پذیر ہو، زبان، رنگ، قومیت اور زمینی مصالح رابطہ کی اساس قرار نہ پائیں۔ تاریخ کے اندر امت اسلامیہ میں
Flag Counter