Maktaba Wahhabi

298 - 512
د: مرتدین کے ساتھ جنگ کرتے ہوئے ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ((اَلْحَرْبُ خُدْعَۃٌ)) کے اصول کو اپنایا، فوج کے اہداف کچھ ظاہر کرتے حالانکہ مقصود کچھ اور ہی ہوتا، انتہائی احتیاط وحذر کا طریقہ اختیار کیا کہ کہیں ان کا منصوبہ فاش نہ ہونے پائے۔[1] اس طرح ابوبکر رضی اللہ عنہ کی قیادت میں سیاسی مہارت، علمی تجربہ، علم راسخ اور ربانی فتح ونصرت نمایاں ہوتی ہے۔ اسود عنسی اور طلیحہ اسدی کے فتنہ کا خاتمہ اور مالک بن نویرہ کا قتل الف:…اسود عنسی کا خاتمہ اور اہل یمن کا دوبارہ ارتداد: الف:…اسود عنسی کا نام عبہلہ بن کعب تھا، ذوالخمار اس کی کنیت تھی کیونکہ یہ ہمیشہ عمامہ باندھتا اور چادر ڈالے رہتا۔[2] چونکہ چہرہ میں سیاہ پن تھا اس لیے اسود عنسی کے نام سے معروف تھا۔ ضخامت جسم اور قوت شجاعت کا مالک تھا، کہانت، شعبدہ بازی اور بلیغ خطاب سے لوگوں کو متاثر کرتا، شعبدہ باز کاہن تھا، اپنی قوم کو عجائب وغرائب دکھاتا، اپنی باتوں کے ذریعہ سے لوگوں کے دلوں کو اسیر کر لیتا اور لوگوں پر اثر انداز ہونے کے لیے مال بے دریغ استعمال کرتا۔[3] حجۃ الوداع کے بعد جیسے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض کی اطلاع ملی، اسود عنسی نے نبوت کا دعویٰ کر دیا اور بعض روایات میں ہے کہ جس طرح مسیلمہ کذاب اپنے آپ کو ’’رحمن الیمامہ‘‘ کہلاتا تھا اسی طرح اسود اپنے آپ کو ’’رحمن الیمن‘‘ کہلانے لگا۔[4] یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے اقرار کے ساتھ اپنی نبوت کا اعلان کرتا اور یہ اس زعم میں مبتلا تھا کہ اس کے پاس دو فرشتے وحی لے کر آتے ہیں جن میں سے ایک کا نام سحیق اور دوسرے کا نام شقیق یا شریق ہے۔[5] شروع میں اپنی دعوت کو مخفی رکھا، اپنے مناسب لوگوں کو خفیہ طور سے اپنے پاس جمع کرتا رہا، پھر اچانک اپنی نبوت کا اعلان کر دیا۔[6] سب سے پہلے اس کی دعوت کو قبول کرنے والے اسی کے قبیلہ ’’عنس‘‘ کے نوجوان تھے۔[7] پھر اس نے قبیلہ ’’مذحج‘‘ کے زعماء سے خط کتابت کی تو اس قبیلہ کی عوام اس کے ساتھ ہو گئی۔[8] اور اسی طرح قیادت وسیادت کے بھوکے بعض زعماء بھی اس کے پھندے میں آگئے۔ اس نے لوگوں کے مابین قبائلی عصبیت بھڑکائی کیونکہ اس کا تعلق قبیلہ ’’عنس‘‘ سے تھا جو قبیلہ ’’مذحج‘‘ کی ایک شاخ تھی۔ اسی طرح اس نے اہل نجران میں سے بنو حارث بن کعب سے خط کتابت کی جو اس وقت مسلمان تھے۔ ان سے اس
Flag Counter