انہیں حرب مجلیہ (کھلی جنگ) اور خطہ مخزیہ (رسوا کن منصوبہ) کے درمیان اختیار دیا۔ انہوں نے عرض کیا: اے خلیفہ رسول! حرب مجلیہ کا تو ہمیں تجربہ ہو گیا لیکن یہ خطہ مخزیہ کیا ہے؟ فرمایا: اسلحہ، گھوڑے، خچر اور گدھے سب تم سے لے لیے جائیں گے اور تمہیں اونٹوں کے پیچھے چھوڑ دیا جائے گا۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنے نبی کے خلیفہ اور اہل ایمان کو ایسی بات دکھائے گا جس سے وہ تمہارے عذر کو مان لیں گے اور جو کچھ تم نے ہم سے لیا ہے اس کو واپس کرو اور ہم نے جو لیا ہے اس کو واپس نہیں کریں گے۔ اور اس بات کی تم شہادت دو کہ ہمارے مقتولین جنت میں ہیں اور تمہارے مقتولین جہنم میں ہیں۔ تم ہمارے مقتولین کی دیت ادا کرو اور ہم تمہارے مقتولین کی دیت نہیں ادا کریں گے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ آپ کا یہ کہنا کہ ہمارے مقتولین کی دیت دو گے تو ہمارے مقتولین تو اللہ کی خاطر شہید ہوئے ہیں ان کے لیے دیت نہیں۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ نے اس سلسلہ میں توقف کیا اور دوسرے کے بارے میں فرمایا: آپ کی رائے بڑی اچھی ہے۔[1] ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عمر رضی اللہ عنہما کی رائے پر عمل کیا اور بنو اسد اور بنوغطفان کی شرط کو قبول کر لیا۔ ام زِمل کا واقعہ: طلیحہ کے گمراہ ساتھیوں کی ایک بڑی جماعت جس کا تعلق بنو غطفان سے تھا، ظفر [2] کے مقام پر ایک خاتون کے پاس جمع ہوئی، جس کا نام ام زمل سلمیٰ بنت مالک بن حذیفہ تھا۔ یہ بھی اپنی ماں ام قرفہ [3] کی طرح عرب کی سرغنہ خواتین میں سے تھی، شرف ومنزلت میں اس کی ماں کی مثال بیان کی جاتی تھی کیونکہ اس کے پاس اولاد کی کثرت تھی، اس کا قبیلہ و گھرانہ عزت و قوت میں معروف تھا۔ جب یہ لوگ اس کے پاس جمع ہوئے تو اس نے انہیں خالد سے قتال پر للکارا، وہ بھڑک اٹھے اور بنو سلیم، طے، ہوازن اور اسد کے لوگ ان کے ساتھ ہو لیے اور گھمسان کی جنگ ہوئی۔ یہ اپنی ماں کے اونٹ پر سوار تھی جس سے متعلق کہا جاتا تھا کہ جو اس کو برانگیختہ کرے اس کے لیے سو اونٹ ہیں۔ یہ محض اس کی عزت و قوت کو نمایاں کرنے کے لیے تھا۔ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے انہیں شکست فاش دی، اس کے اونٹ کو مار ڈالا اور اس کو قتل کر دیا اور فتح کی خوشخبری ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو روانہ کی۔[4] دروس وعبر اور فوائد ابوبکر رضی اللہ عنہ کا اللہ پر اعتماد اور آپ کی جنگی مہارت و تجربہ: عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے آپ کا یہ فرمانا: ’’اپنی قوم کے پاس جلدی جاؤ، کہیں وہ طلیحہ سے نہ جا ملیں اور پھر انہیں ہلاکت و تباہی کا سامنا کرنا پڑے۔‘‘ یہ آپ کی قوت یقین اور اللہ کی نصرت وتائید پر اعتماد کی واضح مثال |
Book Name | سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | شمیم احمد خلییل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 512 |
Introduction |