بھاگ رہے ہو؟ جب خواتین نے انہیں اس طرح ڈانٹا تو انہیں شرم آئی اور پھر قتال کے لیے ٹوٹ پڑے، رومیوں میں سے بہت سے لوگ قتل کیے گئے۔ اس مرحلہ میں سعید بن زید رضی اللہ عنہ نے جام شہادت نوش فرمایا۔ رومی میسرہ نے دوبارہ اسلامی میمنہ پر حملہ کرنے کی کوشش کی اور عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ اور ان کے لشکر پر زور دار حملہ کیا تاکہ صفوں کو چیرتے ہوئے گھیراؤ کر لیں۔ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ اور ان کے لشکر نے ڈٹ کر مقابلہ کیا لیکن رومی معسکر میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ مسلم خواتین ٹیلے سے اتر آئیں اور واپس آنے والے مردوں کو مارنے لگیں۔ عمرو رضی اللہ عنہ کی بیٹی نے کہا: اللہ اس کا برا کرے جو اپنی بیوی کو چھوڑ کر بھاگتا ہے اور اللہ اس کا برا کرے جو اپنی بیٹی کو چھوڑ کر بھاگتا ہے۔ دیگر خواتین کہنے لگیں: اگر تم ہماری حفاظت نہیں کر سکتے تو تم ہمارے شوہر نہیں۔ اس سے مسلمانوں کو دوبارہ عزم وحوصلہ ملا اور دوبارہ قتال میں لگ گئے اور مسلمانوں نے نئے سرے سے رومیوں پر ایسا حملہ کیا کہ انہیں مقبوضہ علاقہ کو چھوڑنا پڑا۔[1] دشمن کو بھاگنے کا موقع فراہم کرنا اور رومی پیادہ فوج کا صفایا: خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے اپنے شہسوار ساتھیوں کو لے کر رومیوں کے میسرہ پر حملہ کر دیا جس نے مسلمانوں کے میمنہ پر حملہ آور ہو کر اسے قلب کی طرف پھیر دیا تھا خالد رضی اللہ عنہ کے اس حملے میں چھ ہزار رومی قتل ہوئے۔ پھر خالد رضی اللہ عنہ نے مسلمانوں سے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، جو کچھ تم دیکھ چکے ہو اس کے سوا ان کے پاس اب کوئی صبر وطاقت باقی نہیں رہی، مجھے امید ہے اللہ تعالیٰ ان کی گردنوں کو تمہارے قبضہ میں دے گا۔ پھر آپ نے انہیں روکا اور سو شہسواروں کو لے کر ایک لاکھ پر حملہ کر دیا، وہ سب تتر بتر ہو گئے۔ مسلمانوں نے ایک ساتھ ان پر حملہ کیا وہ بکھر گئے اور مسلمان ان کا برابر تعاقب کرتے رہے۔[2] اسلامی فوج کے میمنہ نے رومیوں کے سامنے تمام راستہ بند کر دیے اور انہیں وادی یرموک اور دریائے زرقاء کے درمیان محصور کر دیا۔ معرکہ جاری رہا، گھمسان کی جنگ چلتی رہی، مسلمانوں نے خوب ایمانی جوہر دکھائے اور ثابت قدمی کا ثبوت دیا اور رومی فوج کے شہسواروں کو پیادہ فوج سے الگ کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ پھر رومیوں پر حملہ کر دیا اور ان پر چڑھ دوڑے اور انہیں تھکا کر رکھ دیا۔ اس کی وجہ سے رومی شہسوار فرار کے لیے راہ تلاش کرنے لگے۔ خالد رضی اللہ عنہ نے عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ انہیں بھاگنے کا موقع دو، انہوں نے ایسا ہی کیا۔ اس طرح رومی شہسوار بھاگ کھڑے ہوئے اور پیادہ رومی فوج کو شہسواروں کی حمایت نہ مل سکی۔ اس طرح وہ خندقوں کی طرف زنجیروں میں باندھ کر لائے گئے اور ان کی مثال گری ہوئی دیوار کی طرح ہو گئی۔ مسلمان رات کی تاریکی میں ان کی خندق کی طرف بڑھے وہ سب کے سب وادی میں گرنے لگے، ان میں سے ایک شخص جب قتل ہوتا تو اس کے ساتھ جتنے |
Book Name | سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | شمیم احمد خلییل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 512 |
Introduction |