وَالْمُلْکُ۔
اَلْقَوْلُ الثَّالِثُ: أَنَّ [الْکُرْسِيَّ] ہُوَ الْعِلْمُ۔
اَلْقَوْلُ الرَّابِعُ: أَنَّ الْمَقْصُوْدَ مِنْ ہٰذَا الْکَلَامِ تَصْوِیْرُ عَظْمَۃِ اللّٰہِ وَ کِبْرِیَآئِہٖ۔[1]
اول: وہ بہت بڑا جسم ہے، (جو) آسمانوں اور زمین کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔
دوسرا قول: [الکرسی] سے مراد حکمرانی، قدرت اور بادشاہت ہے۔
تیسرا قول: بلاشبہ [الکرسی] علم ہے۔
چوتھا قول: اس کلام سے مقصود اللہ تعالیٰ کی عظمت و کبریائی کی تصویر کشی ہے۔
پھر علامہ رحمہ اللہ تحریر کرتے ہیں:
إِنَّ الْمُعْتَمَدَ ہُوَ الْأَوَّلُ لِأَنَّ تَرْکَ الظَّاہِرِ بِغَیْرِ دَلِیْلٍ لَا یَجُوْزُ۔ وَاللّٰہُ تَعَالٰی أَعْلَمُ۔[2]
بلاشبہ قابلِ اعتماد پہلا (قول) ہی ہے، کیونکہ دلیل کے بغیر ظاہری معنیٰ کو ترک کرنا جائز نہیں۔ وَاللّٰہُ تَعَالٰی أَعْلَمُ۔
علامہ شوکانی رقم طراز ہیں:
اَلْکُرْسِيُّ الظَّاہِرُ أَنَّہٗ الْجِسْمُ الَّذِيْ وَرَدَتِ الْآثَارُ۔ وَقَدْ نَفٰی وَجُوْدَہٗ جَمَاعَۃٌ مِّنَ الْمُعْتَزِلَۃِ، وَأَخْطَؤُوْا فِيْ ذٰلِکَ خَطَأً
|