کیا، تاکہ وہ معرکہ کے سلسلہ میں لازمی معلومات فراہم کریں۔ فوج کو مرتب کرنے کا وقت قریب آچکا تھا۔ مؤقف انتہائی خطرناک تھا، اس لیے لازمی ترتیبات کا اختیار کرنا ضروری تھا۔ اس معرکہ میں علم بردار عبداللہ بن حفص بن غانم رضی اللہ عنہ تھے، پھر یہ سالم مولیٰ ابو حذیفہ رضی اللہ عنہما کو منتقل ہو گیا۔[1] جیسا کہ عربوں کا مقولہ ہے ’’لوگ اپنے جھنڈوں تلے ہوتے ہیں اور جب پرچم ہی زائل ہو جائے تو لوگ بھی زائل ہو جاتے ہیں۔‘‘ خالد رضی اللہ عنہ نے اس معرکہ میں شرحبیل بن حسنہ رضی اللہ عنہ کو آگے بڑھایا اور اسلامی فوج کو پانچ حصوں میں تقسیم کر دیا۔ مقدمہ پر خالد بن ولید مخزومی، میمنہ پر ابو حذیفہ، میسرہ پر شجاع اور قلب پر زید بن خطاب اور شہسواروں پر اسامہ بن زید رضی اللہ عنہم کو مقرر فرمایا اور اونٹوں کو پیچھے رکھا جن پر خیمے لدے تھے اور خواتین سوار تھیں۔[2] اور یہ معرکہ سے قبل آخری ترتیب تھی۔ فیصلہ کن معرکہ: جب دونوں افواج میدان معرکہ کی طرف متوجہ ہوئیں تو مسیلمہ نے اپنے پیروکاروں سے معرکہ سے قبل خطاب کیا، ان سے کہا: آج غیرت وحمیت کا دن ہے اگر آج تم شکست کھا گئے تو تمہاری عورتوں کو قیدی بنا کر ان سے شادی کر لیں گے اور یہ شادی ان کے لیے خوش آئند نہ ہو گی۔ لہٰذا تم اپنے حسب ونسب کی حفاظت کے لیے قتال کرو اور اپنی عورتوں کی حفاظت کرو۔[3] خالد رضی اللہ عنہ اسلامی لشکر لے کر آگے بڑھے، ایک ٹیلے پر اتر گئے، جس کے نیچے یمامہ تھا، اور اپنی فوج کو وہاں ٹھہرا دیا اور مسلمانوں اور کفار کے درمیان معرکہ شروع ہوا۔ پہلے چکر میں اعراب شکست خوردہ ہو گئے اور بنو حنیفہ کے لوگ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے خیمے میں گھس آئے اور ام تمیم کو قتل کرنا چاہا لیکن مجاعہ نے ان کو بچا لیا اور کہا: یہ تو انتہائی اچھی آزاد خاتون ہے۔ اور اس چکر میں رجال بن عنفوہ ملعون قتل کر دیا گیا۔ زید بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اس کو قتل کیا۔ پھر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ایک دوسرے کو برانگیختہ کرنا اور ملامت کرنا شروع کیا۔ ثابت بن قیس بن شماس رضی اللہ عنہ نے کہا: کتنی بری ہے وہ چیز جس کا تم نے اپنے ساتھیوں کو عادی بنایا، اور ہر جانب سے یہ آواز آنے لگی: ’’خالد ہم تک پہنچو۔‘‘ اتنے میں مہاجرین و انصار کی ایک جماعت پہنچ گئی اور بچاؤ ہو گیا۔ بنو حنیفہ نے غیر معمولی قتال کیا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ایک دوسرے کو وصیت کرنے لگے اور کہنے لگے: اے سورئہ بقرہ والو! آج جادو ٹوٹ گیا۔ ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ نے جسم پر حنوط مل لیے، کفن باندھ لیے اور نصف ساق تک زمین کھودلی، آپ انصار کا پرچم لیے وہاں ڈٹ گئے، یہاں تک کہ جام شہادت نوش کر لیا۔ مہاجرین نے سالم مولیٰ ابی حذیفہ رضی اللہ عنہما سے کہا: کیا آپ کو یہ خطرہ ہے کہ آپ کی طرف سے دشمن کہیں ہم |
Book Name | سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | شمیم احمد خلییل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 512 |
Introduction |