Maktaba Wahhabi

117 - 512
مسلمانوں کی صفوں میں فتنہ پیدا کرنا چاہا، جبکہ اس نے قائد اور لشکر کے درمیان اعتماد کو کمزور کرنے کی کوشش کی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: یہ اوباش لوگ آپ کو تنہا چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوں گے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی تردید اور برملا جواب بڑا مؤثر ثابت ہوا اور عروہ کی نفسیات پر اس کا گہرا اثر پڑا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ کا یہ موقف انتہائی عزیمت ایمانی کا مظہر تھا، جس کے بارے میں ارشاد ربانی ہے: وَلَا تَهِنُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَنتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ ﴿١٣٩﴾ (آل عمران: ۱۳۹) ’’تم نہ سستی کرو نہ غمگین ہو، تم ہی غالب رہو گے اگر تم ایمان دار ہو۔‘‘ ب۔ صلح سے متعلق صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا مؤقف: سہیل بن عمرو کی قیادت میں جب مشرکین مکہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مصالحت پر اتفاق کر لیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین کے جن مطالبات سے اتفاق کر لیا، صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے بلا چون وچرا قبول وتسلیم کر لیا اگرچہ بظاہر اس صلح کی دفعات مسلمانوں کے خلاف نظر آرہی تھیں لیکن چونکہ آپ کو یہ یقین تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ کہتے ہیں اپنی خواہش سے نہیں بلکہ وحی الٰہی کی بنیاد پر کہتے ہیں، اور آپ نے جو ان دفعات کو قبول کیا تو ضرور اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس کے اسرار و نتائج سے مطلع کیا ہو گا، اس لیے آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ کو اختیار کیا۔[1] مؤرخین نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے بارے میں لکھا ہے کہ ان کو ان دفعات پر تشویش تھی چنانچہ وہ اپنا اعتراض لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، عرض کیا: کیا آپ اللہ کے رسول نہیں ہیں؟ آپ نے فرمایا: کیوں نہیں، میں اللہ کا رسول ہوں۔ عرض کیا: کیا ہم مسلمان نہیں ہیں؟ آپ نے فرمایا: کیوں نہیں، ضرور مسلمان ہیں۔ عرض کیا: کیا وہ مشرک نہیں؟ آپ نے فرمایا: کیوں نہیں، ضرور وہ مشرک ہیں۔ عرض کیا: پھر کیوں ہم اپنے دین کے بارے میں دباؤ قبول کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں اللہ کا رسول ہوں اور میں اللہ کی نافرمانی نہیں کر سکتا۔[2] اور ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں، میں اس کے حکم کی
Flag Counter