Maktaba Wahhabi

139 - 512
۷۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا اہتمام: ابوبکر رضی اللہ عنہ عید کے دنوں میں ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لائے،دیکھا ان کے پاس انصار کی دو بچیاں نغمے گا رہی ہیں، فرمایا: کیا شیطان کی بانسری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں؟ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا چہرہ مبارک ان دونوں سے پھیر کر دیوار کی طرف رخ کیے ہوئے لیٹے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((دعہما یا ابابکر فان لکل قوم عیدا وہذا عیدنا اہل الاسلام۔))[1] ’’اے ابوبکر ان دونوں کو چھوڑ دو، ہر قوم کی عید ہوتی ہے اور یہ ہم اہل اسلام کی عید ہے۔‘‘ اس حدیث سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی عادت اور طریقہ کے منافی تھا، اسی لیے صدیق رضی اللہ عنہ نے اسے شیطان کی بانسری قرار دیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان بچیوں کے اس عمل کی علت، عید کو قرار دیا اور بچوں کو عید کے موقع پر لہو ولعب کی رخصت ہے۔ جیسا کہ حدیث میں آیا ہے: ((لیعلم المشرکون أنَّ فی دیننا فسحۃ۔))[2] ’’تاکہ مشرکین کو معلوم ہو جائے کہ ہمارے دین میں وسعت ہے۔‘‘ عائشہ رضی اللہ عنہا نو عمر ہونے کی وجہ سے کھلونوں سے کھیلا کرتی تھیں اور آپ کے ساتھ آپ کی سہیلیاں بھی شرکت کرتی تھیں۔ اس حدیث میں یہ وارد نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے نغمے کو کان لگا کر سن رہے تھے۔ (اگر یہ آپ کو پسندیدہ ہوتا تو رخ انور اس طرف سے نہ پھیرتے بلکہ متوجہ ہو کر سنتے) اور امر ونہی کا تعلق استماع یعنی متوجہ ہو کر سننے سے ہے نہ کہ محض سماع سے۔[3] اس سے یہ بات ہم سمجھ سکتے ہیں کہ عید کے موقع پر جو بچے کھیلنے کی عمر میں ہیں ان کو کھیل کود کی رخصت ہے۔ جیسا کہ انصار کی دونوں چھوٹی بچیاں ام المومنین رضی اللہ عنہا کے گھر میں نغمے گا رہی تھیں۔[4] ۸۔ مہمانوں کی تکریم: عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: اصحاب صفہ فقراء تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ فرمایا: جس کے پاس دو آدمیوں کا کھانا ہو وہ اپنے ساتھ تیسرے کو لے جائے اور جس کے پاس چار آدمیوں کا کھانا ہو وہ پانچویں کو لے جائے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ تین آدمیوں کو لے آئے…… اور خود ابوبکر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس شام کا کھانا تناول کیا اور کچھ رات گذرنے کے بعد گھر تشریف لائے۔
Flag Counter