اگر اس کے اندر نرمی پائی جاتی ہے تو اسے اپنا نائب کسی ایسے شخص کو مقرر کرنا چاہیے جس کی طبیعت میں سختی ہو، وہ اگر ایسا ہو کہ اس کے اندر سختی ہو تو نائب ایسا ہونا چاہیے جس کی طبیعت میں نرمی پائی جائے تاکہ دونوں کی سختی ونرمی مل کر اعتدال پیدا کر سکیں۔ اسی لیے ابوبکر رضی اللہ عنہ خالد رضی اللہ عنہ کو نائب مقرر کرنے کو ترجیح دیتے تھے اور عمر رضی اللہ عنہ خالد رضی اللہ عنہ کو معزول کرنے اور ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کو نائب مقرر کرنے کو ترجیح دیتے تھے کیونکہ خالد رضی اللہ عنہ بھی عمر رضی اللہ عنہ کی طرح شدید تھے اور ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی طرح نرم تھے۔ دونوں نے جس کو والی بنایا وہ ان کے لیے زیادہ مناسب تھے تاکہ اعتدال برقرار رہے اور اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحیح خلفاء بنیں، جو معتدل تھے۔[1] آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ((انا نبی الرحمۃ انا نبی الملحمۃ))۔ [2] ’’میں نبی رحمت ہوں، میں نبی جنگ ہوں۔‘‘ اہل عمان اور بحرین کا ارتداد اہل عمان کا ارتداد: اہل عمان نے اسلامی دعوت قبول کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کو بھیجا پھر آپ کی وفات کے بعد لقیط بن مالک الازدی ان میں اٹھا، جس کا لقب ذوالتاج تھا اور یہ دور جاہلیت میں شاہ عمان جلندی کے ہم پلہ سمجھا جاتا تھا۔[3] اس نے نبوت کا دعویٰ کر دیا اور عمان کے جاہلوں نے اس کی پیروی کی۔ یہ عمان پر قابض ہو گیا اور جلندی کے دونوں بیٹوں؛ جیفر اور عباد کو مغلوب کر لیا[4] اور انہیں ساحلی اور پہاڑی علاقہ میں محصور کر دیا۔ جیفر نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اس سے باخبر کیا اور مدد طلب کی۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان کے پاس دو امیر بھیجے ، ایک حذیفہ بن محصن غلفانی حمیری اور دوسرے عرفجہ بارقی ازدی۔ حذیفہ کو عمان کی طرف اور عرفجہ کو مہرہ کی طرف روانہ کیا۔ ان دونوں کو حکم فرمایا کہ دونوں ایک ساتھ ہو کر اوّلاً عمان جائیں اور حذیفہ بحیثیت امیر ہوں گے۔ اور جب مہرہ کے علاقہ میں پہنچیں تو عرفجہ امیر ہوں گے اور ان کی مدد کے لیے عکرمہ رضی اللہ عنہ کو روانہ کیا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرفجہ اور حذیفہ کو لکھا کہ عمان پہنچ کر عکرمہ رضی اللہ عنہ کی رائے پر عمل کریں۔ یہ جب عمان پہنچے تو جیفر سے مراسلت کی اور ادھر لقیط بن مالک کو اسلامی لشکر کے پہنچنے کی خبر ملی وہ اپنی فوج لے کر مقابلہ کے لیے نکلا اور دبا کے مقام پر فروکش ہوا، ’’دبا‘‘ اس ملک کا شہر اور مرکزی بازار تھا۔ عورتوں، بچوں اور مال و متاع کو اپنے پیچھے رکھا تاکہ اس سے جنگ میں تقویت ملے اور جیفر و عباد صحار کے مقام پر فروکش ہوئے اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے مقرر کردہ امراء کو مطلع کیا۔ وہ لوگ بھی مسلمانوں کے ساتھ آملے۔ دونوں افواج میں گھمسان کی جنگ ہوئی۔ مسلمانوں پر آزمائش کا وقت آیا۔ قریب تھا کہ بھاگ کھڑے ہوتے لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے لطف وکرم سے احسان فرمایا اور |
Book Name | سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | شمیم احمد خلییل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 512 |
Introduction |