جائیں۔[1] ابوبکر رضی اللہ عنہ کا یہ عمل محکم ترین جنگی سیاست تھی۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مالک بن نویرہ کے معاملہ میں پوری تحقیق کی اور اس نتیجہ پر پہنچے کہ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ مالک بن نویرہ کے قتل کے اتہام میں بری ہیں۔[2] ابوبکر رضی اللہ عنہ اس سلسلہ میں حقائق امور سے دوسروں کی بہ نسبت زیادہ واقف تھے اور گہری نگاہ رکھتے تھے کیونکہ آپ خلیفہ تھے اور تمام خبریں آپ کو پہنچتی تھیں اور آپ کا ایمان بھی سب پر بھاری تھا۔ خالد رضی اللہ عنہ کے ساتھ تعامل میں آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی پیروی کر رہے تھے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خالد رضی اللہ عنہ کو جو ذمہ داری بھی سونپی کبھی معزول نہیں کیا اگرچہ ان سے بعض ایسی چیزیں صادر ہوئیں جن سے آپ مطمئن نہ تھے، آپ ان کے عذر کو قبول فرماتے اور لوگوں سے فرماتے: خالد کو تکلیف مت پہنچاؤ، وہ اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار ہے، جسے اللہ تعالیٰ نے کفار پر مسلط کر دیا ہے۔[3] ابوبکر رضی اللہ عنہ کا کمال ہے کہ انہوں نے خالد رضی اللہ عنہ کو گورنری سونپی اور ان سے تعاون لیا حالانکہ ان کے اندر شدت پائی جاتی تھی اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کی طبیعت نرم تھی تاکہ اس طرح سختی نرمی کے ساتھ مل کر خالد رضی اللہ عنہ کی طبیعت میں اعتدال آجائے کیونکہ صرف نرمی اور اسی طرح صرف سختی تباہ کن ہو سکتی ہے لہٰذا ابوبکر رضی اللہ عنہ ، عمر رضی اللہ عنہ سے مشورہ لیتے اور خالد رضی اللہ عنہ کی طرف رجوع کرتے، یہ کمال تھا، جس کو خلیفہ رسول نے اختیار کیا۔ اسی لیے مرتدین سے قتال کے سلسلہ میں شدید مؤقف اختیار کیا اور اس سلسلہ میں عمر وغیرہ رضی اللہ عنہم پر غالب رہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کے اندر ایسی شدت پیدا کی جو اس سے پہلے آپ کے اندر نہ تھی اور عمر رضی اللہ عنہ کی طبیعت میں سختی تھی لیکن ان کا کمال یہ رہا کہ انہوں نے اپنی خلافت میں ابوعبیدہ بن جراح، سعد بن ابی وقاص، ابوعبید ثقفی، نعمان بن مقرن، سعید بن عامر رضی اللہ عنہم وغیرہ جیسے لوگوں سے تعاون لیا، جو زہد وعبادت میں خالد رضی اللہ عنہ وغیرہ پر فائق تھے، جس کا اثر یہ ہوا کہ خلافت کے بعد آپ کے اندر ایسی رافت اور نرمی پیدا ہوئی جو اس سے قبل آپ کے اندر نہ تھی، یہاں تک کہ آپ امیرالمومنین قرار پائے۔[4] علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس سلسلہ میں بڑی نفیس بحث کی ہے، فرماتے ہیں: ’’خلیفہ رسول ابوبکر رضی اللہ عنہ ارتداد کی جنگ اور عراق وشام کی فتوحات میں خالد رضی اللہ عنہ سے کام لیتے رہے باوجودیکہ ان سے بعض لغزشیں تاویل کی بنا پر صادر ہوئیں اور آپ سے ان کی شکایت بھی کی گئی لیکن آپ نے ان کو معزول نہیں کیا، بلکہ صرف عتاب پر اکتفا کیا کیونکہ ان کو برقرار رکھنے میں مصلحت راجح تھی۔ دوسرا کوئی ان کا قائم مقام نہیں ہو سکتا تھا، کیونکہ بڑا ذمہ دار |
Book Name | سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | شمیم احمد خلییل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 512 |
Introduction |