اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ قلعہ میں کندہ کے سات سو افراد قتل ہوئے، اس طرح ان کا مؤقف بنو قریظہ کے یہودیوں کے مؤقف کے مشابہ رہا۔[1] کندہ کے ارتداد کا جب قلع قمع ہو گیا تو عکرمہ بن ابی جہل رضی اللہ عنہ اپنے ساتھ قیدی اور خمس لے کر مدینہ روانہ ہوئے اور آپ کے ساتھ اشعث بن قیس تھا جو اپنی قوم کی نگاہ میں مبغوض قرار پا گیا، خاص کر خواتین کے نزدیک۔ انہوں نے اس کو اپنی ذلت کا سبب شمار کیا۔ اس کی قوم کی خواتین نے اس کو ’’عرف النار‘‘ (غدار) کا خطاب دیا۔[2] جب اشعث ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچا تو آپ نے اس سے فرمایا:’’تمہاری یہ کارستانیاں ہیں جنہیں تم جانتے ہو، میں تمہارے ساتھ کیا برتاؤ کروں؟‘‘ کہا: آپ مجھ پر احسان کریں، ہتھکڑی کھول دیں اور اپنی بہن سے میری شادی کر دیں۔ میں نے رجوع کر لیا ہے اور اسلام قبول کر چکا ہوں۔‘‘ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: ’’میں نے ایسا ہی کیا۔‘‘ پھر آپ نے ام فروہ بنت ابی قحافہ سے اس کی شادی کر دی اور وہ فتح عراق تک مدینہ میں مقیم رہا۔[3] اور ایک روایت میں یوں وارد ہے کہ جب اشعث کو یہ خطرہ لاحق ہوا کہ اس کو ابوبکر رضی اللہ عنہ نہیں بخشیں گے تو اس نے عرض کیا: کیا آپ اللہ سے خیر کے طالب نہیں؟ آپ مجھے چھوڑ دیجیے، میری غلطی معاف کیجیے اور میرے اسلام کو قبول کیجیے اور میرے ساتھ وہی برتاؤ کیجیے جو مجھ جیسے لوگوں کے ساتھ آپ نے کیا ہے، اور میری بیوی کو میرے حوالے کر دیجیے۔[4] آپ مجھے اللہ کے دین کے لیے میرے وطن والوں سے بہتر پائیں گے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس کو معاف کر دیا، اس کے عذر کو قبول کیا اور اس کی بیوی کو اس کے حوالے کر دیا، اور فرمایا: جاؤ تم سے خیر ہی خیر مجھے ملنا چاہیے اور دیگر تمام لوگوں کو رہا کر دیا اور لوگ واپس اپنے وطن چلے گئے، پھر مال غنیمت کا خمس آپ نے لوگوں میں تقسیم کیا۔[5] درس وعبرت امت کی تعمیر و ترقی اور انہدام و افساد میں عورت کا کردار: یمن میں حروب ارتداد کے دوران خواتین کے دو کردار نمایاں ہوئے: ایک پیکر عفت وعصمت خاتون کا کردار جو اسلام کے ساتھ اٹھ کھڑی ہوئی اور رذائل و فساد سے برسر پیکار |
Book Name | سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | شمیم احمد خلییل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 512 |
Introduction |