(۱) وفات النبیؐ اور سقیفہ بنی ساعدہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات صاف وشفاف روحیں اللہ کی قدرت سے بعض ان چیزوں کا اندازہ کر لیتی ہیں جو غیب کے پردے میں پوشیدہ ہوتی ہیں۔ پاک ومطمئن قلوب سے مستقبل میں وقوع پذیر ہونے والے امور کو بیان کروا دیا۔ ذہین اور روشن عقلیں نور ایمان کی برکت سے ان اشارات و تلمیحات کا اندازہ کر لیتی ہیں جو الفاظ وواقعات کے پیچھے پنہاں ہوتی ہیں۔ ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ان صفات کی وافر مقدار حاصل تھی۔ آپ ان صفات میں اعلیٰ مقام پر فائز تھے جہاں دوسرا کوئی نہیں پہنچ سکتا۔[1] بعض قرآنی آیات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بشریت کی تاکید کرتی ہیں اور یہ واضح کرتی ہیں کہ آپ بھی دوسروں کی طرح بشر ہیں، عنقریب موت کا مزہ چکھیں گے اور سکرات الموت آپ پر بھی طاری ہوں گے جیسا کہ آپ سے قبل دیگر انبیاء علیہم السلام موت کا مزہ چکھ چکے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بعض آیات سے اپنی موت کی قربت سمجھ گئے تھے اور کئی احادیث صحیحہ میں آپ نے اپنی موت کے قریب ہونے کی طرف اشارہ فرمایا، جن میں سے کچھ تو وفات کی صراحت کرتی ہیں اور کچھ نہیں۔ اسے صرف بعض کبار صحابہ، ابوبکر، عباس اور معاذ رضی اللہ عنہم جیسے لوگ ہی سمجھ سکے۔ [2] ۱۔ مرض الموت کا آغاز: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ذوالحجہ۱۰ ہجری میں حجۃ الوداع سے واپس ہوئے اور مدینہ میں ذوالحجہ کے بقیہ ایام اور محرم وصفر گذارے۔ لشکر کو تیار کیا اور اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کو اس کا امیر مقرر فرمایا اور انہیں بلقاء وفلسطین کی طرف کوچ کرنے کا حکم فرمایا۔ لوگوں نے تیاری کی اور ان میں مہاجرین وانصار بھی تھے۔ اس وقت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کی عمر صرف اٹھارہ (۱۸) سال تھی۔ مہاجرین و انصار میں سے بعض لوگوں کو ان کی امارت پر اعتراض تھا،[3] کیونکہ وہ موالی (غلاموں)میں سے کم سن تھے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے اعتراض کو قبول نہ فرمایا اور ارشاد فرمایا: اگر آج یہ لوگ اسامہ کی امارت پر اعتراض کرتے ہیں تو اس سے قبل اس کے باپ زید کی امارت پر |
Book Name | سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | شمیم احمد خلییل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 512 |
Introduction |