Maktaba Wahhabi

166 - 512
بھی اعتراض کر چکے ہیں۔ اللہ کی قسم وہ امارت کا مستحق تھا اور وہ میرے نزدیک محبوب ترین لوگوں میں سے تھا اور زید کا فرزند اسامہ ان کے بعد میرے نزدیک محبوب ترین لوگوں میں سے ہے۔[1] لوگ جہاد کی تیاری میں تھے اسی دوران رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کا آغاز ہوا۔[2] آپ کے بیمار پڑنے اور وفات کے درمیان مختلف واقعات پیش آئے۔ ان میں سے بعض یہ ہیں: شہدائے احد کی زیارت اور ان کے لیے دعائے مغفرت۔[3] حجرۂ عائشہ رضی اللہ عنہا میں بیماری کے ایام گذارنے کے لیے ازواج مطہرات سے اجازت طلبی اور بیماری میں شدت۔[4] جزیرئہ عرب سے مشرکین کو نکال باہر کرنے اور وفود کے ساتھ نوازش کرنے کی وصیت۔[5] قبر کو سجدہ گاہ بنانے کی ممانعت۔[6] اللہ کے ساتھ حسن ظن رکھنے کی وصیت۔[7] نماز اور ماتحتوں (غلاموں) کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت۔[8] آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح فرمایا کہ اب مبشرات نبوت میں سے صرف اچھے خواب باقی ہیں۔[9] انصار کے ساتھ خیر کی وصیت۔[10] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مرض الموت میں خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: ((ان اللہ خَیَّرَ عبدًا بین الدنیا وبین ما عند اللّٰہ ، فاختار ذلک العبد ما عند اللہ۔)) ’’اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک بندے کو اختیار دیا کہ وہ چاہے دنیا لے لے یا اللہ کے پاس جو کچھ ہے اسے اختیار کرے تو اس بندے نے اللہ کے پاس والی چیز کو اختیار کرلیا۔‘‘
Flag Counter