یہ سن کر ابوبکر رضی اللہ عنہ رونے لگے۔ ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہمیں ابوبکر رضی اللہ عنہ کے رونے پر بڑا تعجب ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی بندے کو اختیار دیے جانے کی خبر دے رہے ہیں اور یہ رو رہے ہیں۔ (لیکن چند روز بعد واضح ہوا کہ) جس بندے کو اختیار دیا گیا تھا وہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے اور ابوبکر رضی اللہ عنہ ہم میں سب سے زیادہ صاحب علم تھے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھ پر اپنی رفاقت اور مال میں سب سے زیادہ صاحب احسان ابوبکر ہیں اور اگر میں اپنے رب کے علاوہ کسی اور کو خلیل بناتا تو ابوبکر کو خلیل بناتا لیکن ان کے ساتھ اسلام کی اخوت ومحبت کا تعلق ہے۔ مسجد میں کوئی دروازہ باقی نہ چھوڑا جائے بلکہ اسے لازماً بند کر دیا جائے سوائے ابوبکر کے دروازہ کے۔[1] حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ابوبکر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اشارے کو آپ کے مرض الموت میں اس کے ذکر کے قرینے سے پہچان لیا تھا کہ آپ اپنے آپ کو مراد لے رہے ہیں، اس لیے رونے لگے۔[2] جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری میں مزید شدت آگئی اور نماز کا وقت آگیا، بلال نے اذان دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابوبکر سے کہو نماز پڑھائیں۔ عرض کیا گیا: ابوبکر رقیق القلب ہیں جب آپ کے مقام پر کھڑے ہوں گے تو لوگوں کو نماز نہ پڑھا سکیں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مؤقف پر قائم رہے، لوگ اپنی بات کہتے رہے، تیسری مرتبہ آپ نے فرمایا: ’’تم سب یوسف والیاں[3] ہو، ابوبکر سے کہو وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔‘‘ آپ نے لوگوں کو نماز پڑھائی۔[4] (ایک روز) ابوبکر رضی اللہ عنہ نے نماز (ظہر) پڑھانا شروع کی، ادھر نبی |
Book Name | سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | شمیم احمد خلییل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 512 |
Introduction |