کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی طبیعت میں قدرے تخفیف محسوس کی، دو آدمیوں کے سہارے چل کر مسجد میں تشریف لائے، تکلیف سے آپ کے پیر گھسٹ رہے تھے، آپ کی آمد محسوس کر کے ابوبکر رضی اللہ عنہ نے پیچھے ہٹنا چاہا، آپ نے اشارے سے ان کو اپنی جگہ رہنے کا حکم دیا، پھر آپ آکر ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بائیں پہلو میں بیٹھ گئے۔ اعمش سے پوچھا گیا: کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھا رہے تھے، اور ابوبکر رضی اللہ عنہ آپ کی اقتدا کر رہے تھے اور لوگ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی اقتدا میں نماز پڑھ رہے تھے؟ تو اعمش نے اپنے سر کے اشارے سے کہا: ہاں۔[1] ابوبکر رضی اللہ عنہ برابر لوگوں کو پنج وقتہ نماز پڑھاتے رہے، یہاں تک کہ حیات طیبہ کا آخری دن دو شنبہ آیا۔ مسلمان نماز فجر میں صف بہ صف کھڑے تھے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے حجرے کا پردہ ہٹایا، مسلمانوں پر نظر ڈالی وہ اپنے رب کے سامنے کھڑے تھے۔ آپ نے دیکھا کہ آپ کی دعوت وجہاد نے کیا اثر دکھایا ہے اور کس طرح وہ امت وجود میں آئی جو آپ کی موجودگی اور عدم موجودگی میں نماز پر ہمیشگی کر رہی ہے، اس حسین و دلکش منظر اور نجاح وکامیابی کو (جو آپ سے قبل کسی نبی و داعی کو میسر نہ آئی) دیکھ کر آپ کی آنکھیں ٹھنڈی ہو گئیں اور آپ کو اطمینان حاصل ہو گیا کہ اس امت کا تعلق اللہ اور دین سے دائمی ہے۔ نبی کی وفات سے منقطع ہونے والا نہیں ۔ اس سے آپ کو اس قدر خوشی حاصل ہوئی جس کی انتہا اللہ ہی کو معلوم ہے اور آپ کا چہرۂ انور روشن ہو گیا۔[2] صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بیان کرتے ہیں: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجرہ عائشہ کا پردہ ہٹایا، اور کھڑے ہو کر ہمیں دیکھنے لگے، آپ کا چہرئہ انور قرآن کا صفحہ (چمکدار، صاف شفاف) معلوم ہو رہاتھا، پھر آپ مسکرا کر ہنسنے لگے۔ ہم اس قدر خوش ہوئے کہ ارادہ کر لیا کہ نماز کے اندر ہی فتنے میں پڑ جائیں (یعنی نماز توڑ دیں) اور ہمیں یقین ہو گیا کہ آپ نماز کے لیے تشریف لا رہے ہیں لیکن آپ نے اپنے ہاتھ سے اشارہ فرمایا کہ اپنی نمازیں پوری کر لو، پھر حجرے کے اندر تشریف لے گئے اور پردہ گرا لیا۔[3] اس کے بعد صحابہ کو قدرے اطمینان ہو گیا اور بعض صحابہ اپنے کاروبار میں مشغول ہو گئے، ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنی بیٹی عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحت پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکلیف ختم ہو گئی اور آج بنت خارجہ (آپ کی زوجہ محترمہ) کی باری ہے۔ وہ مقام سنح میں رہتی تھیں۔ آپ رضی اللہ عنہ اپنے گھوڑے پر سوار ہوئے اور ان کے پاس چلے گئے۔[4] نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر سکرات کی کیفیت تیز ہو گئی، اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، آپ کلام پر قادر نہ تھے، اپنے دونوں ہاتھوں کو آسمان کی طرف اٹھایا اور پھر اسامہ پر رکھا، اس سے وہ سمجھ گئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم |
Book Name | سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | شمیم احمد خلییل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 512 |
Introduction |