Maktaba Wahhabi

235 - 512
آپ کی یہ رائے تھی کہ قاضی صرف اپنے ذاتی علم کی بنیاد پر فیصلہ نہ کرے مگر یہ کہ اس کے ساتھ دوسرا گواہ ہو، جس سے اس کے علم کو قوت مل رہی ہو۔ آپ نے فرمایا: اگر میں کسی کو دیکھوں کہ اس نے شرعی حد کا ارتکاب کیا ہے تو میں اس کو اس وقت تک سزا نہ دوں گا جب تک اس پر واضح دلیل قائم نہ ہو جائے یا یہ کہ میرے ساتھ دوسرا کوئی گواہ ہو۔[1] یہاں قضاء سے متعلق عہد صدیقی میں صادر ہونے والے بعض فیصلوں کا تذکرہ کیا جا رہا ہے۔ ۱۔ قصاص کا معاملہ: علی بن ماجدہ سہمی کا بیان ہے کہ میں نے ایک شخص سے جھگڑا کیا تو اس کے کان کا بعض حصہ کاٹ دیا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ جب حج کے لیے مکہ تشریف لائے تو ہمارا معاملہ آپ کے سامنے پیش کیا گیا۔ آپ نے عمر رضی اللہ عنہ سے کہا: دیکھو قصاص کی حد کو پہنچتا ہے؟ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: ہاں، میں حجام کو بلاتا ہوں۔ جب حجام کا ذکر آیا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ’’میں نے اپنی خالہ کو ایک غلام ہبہ (عطا) کیا، امید کرتا ہوں کہ اس میں ان کو برکت حاصل ہو، اور میں نے ان کو اسے حجام یا قصاب یا صانع بنانے سے منع کیا۔‘‘[2] ۲۔ والد کا نفقہ اولاد کے ذمہ: قیس بن ابی حازم سے روایت ہے، میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس موجود تھا، ایک شخص نے عرض کیا: اے خلیفہ رسول! یہ میرا پورا مال لینا چاہتے ہیں اور ان کو اس کی ضرورت ہے۔ تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تم اس کے مال میں سے ضرورت بھر کا لے لو۔ اس شخص نے کہا: اے خلیفہ رسول! کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں فرمایا ہے: ’’تو اور تیرا مال تیرے باپ کا ہے۔‘‘ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ جسے پسند کرے تم بھی پسند کرو۔ دوسروں نے منذر بن زیاد سے روایت کی ہے اور اس میں ہے کہ اس سے مقصود نفقہ ہے۔[3] ۳۔ مشروع دفاع: ابوملیکہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں: ایک شخص نے دوسرے شخص کے ہاتھ میں دانت سے کاٹا، تو اس
Flag Counter