چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ((ما من احد الا وقد وکل بہ قرینہ من الملائکۃ وقرینہ من الجن قیل: وانت یا رسول اللہ؟ قال: وانا الا ان اللہ اعاننی علیہ فاسلم فلا یامرنی الا بخیر۔))[1] ’’ہر ایک کے ساتھ ایک قرین (ہمہ وقتی ساتھی) ملائکہ میں سے اور ایک قرین جن میں سے لگا دیا گیا ہے۔ عرض کیا گیا: یا رسول اللہ! آپ کے ساتھ بھی؟ فرمایا: میرے ساتھ بھی، لیکن اللہ نے میری مدد فرمائی اور وہ مسلمان ہو گیا۔ وہ مجھے بھلائی ہی کا حکم دیتا ہے۔‘‘ اور حدیث میں آیا ہے کہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی زوجہ محترمہ ام المومنین صفیہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ گفتگو فرما رہے تھے، ادھر سے بعض انصار کا گذر ہوا تو آپ نے ان سے فرمایا: ذرا ٹھہرو یہ صفیہ بنت حی ہیں۔ پھر آپ نے بتلایا: ((انی خشیت ان یقذف الشیطان فی قلوبکما ان الشیطان یجری من ابن آدم مجری الدم۔))[2] ’’میں ڈرا کہ کہیں شیطان تمہارے دلوں میں شک وشبہ نہ پیدا کر دے، کیونکہ شیطان انسان کے خون کے ساتھ دوڑتا ہے۔‘‘ ابوبکر رضی اللہ عنہ کا اس بیان سے یہ مقصود ہے کہ میں معصوم نہیں ہوں، معصوم صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ اور یہ بالکل حق ہے۔[3] اس خطاب کے ذریعہ سے ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مسلمانوں کو وعظ فرمایا اور موت اور گذشتہ ملوک وسلاطین کے حالات یاد دلائے اور عمل صالح پر ابھارا تاکہ اللہ کی ملاقات کے لیے تیار رہیں اور اپنی زندگی میں منہجِ الٰہی پر ثابت رہیں۔[4] یہاں ہم اس بات کو اچھی طرح ملاحظہ کر رہے ہیں کہ آپ نے اپنی قوت بیان کو امت کی خدمت کے لیے وقف کر رکھا تھا، آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فصیح ترین خطباء میں سے تھے۔ استاذ عقاد فرماتے ہیں: آپ کا کلام اخلاق وحکمت کے میزان میں سب سے زیادہ وزنی ہے۔ آپ نے مواقع کلام سے متعلق نادر مثالیں چھوڑی ہیں، ان میں سے ایک مثال ہی کافی ہے جو آپ کے اس ملکہ پر دلالت کرتی ہے، زیادہ کی ضرورت نہیں۔ جس طرح ایک ہی پھول پورے گلشن سے کافی ہے، اسی طرح ان کی ایک بات کا سن لینا ہی ان کی ذات و فکر میں موجود حکمت کے خزانوں کا پتہ دیتا ہے۔ جیسے آپ کا یہ ارشاد: |
Book Name | سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | شمیم احمد خلییل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 512 |
Introduction |