(۲) عام بیعت اور داخلی امور کا انتظام وانصرام عام بیعت: جب سقیفہ بنو ساعدہ کے اجتماع میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کا انتخاب منصب خلافت کے لیے ہو گیا اور بیعت خاص ہو گئی تو دوسرے دن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مسجد نبوی میں عام بیعت کے لیے جمع ہوئے۔[1] اس وقت عمر رضی اللہ عنہ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کی تائید میں اہم کردار ادا کیا۔ چنانچہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: جب سقیفہ میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت ہو گئی تو دوسرے دن ابوبکر رضی اللہ عنہ منبر پر تشریف لائے، آپ سے پہلے عمر رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور اللہ کی حمدوثنا بیان کی، پھر فرمایا: ’’لوگو! میں نے کل ایک بات آپ لوگوں سے کہی تھی وہ کتاب اللہ میں مجھے نہیں ملی اور نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا عہد مجھ کو دیا تھا لیکن میرا خیال تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے امور کی تدبیر کرتے رہیں گے اور ہم میں سب سے آخر میں رخصت ہوں گے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے تمہارے اندر اپنی کتاب باقی رکھی ہے جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت ملی، اگر تم اس کو مضبوطی سے تھامے رہو گے تو اللہ تمہیں بھی اس کی ہدایت دے گا جس کی ہدایت اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے تمہیں ایسے شخص پر جمع کر دیا ہے جو تم میں سب سے افضل، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی، ثانی اثنین اور یار غار ہیں۔ اٹھو اور ان سے بیعت کرو۔‘‘ پھر لوگوں نے سقیفہ کی بیعت کے بعد عام بیعت کی۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اللہ کی حمدوثنا کے بعد فرمایا: ’’لوگو! میں تم پر والی مقرر کیا گیا ہوں لیکن تم میں سب سے بہتر نہیں ہوں۔ اگر میں اچھا کام کروں تو میرے ساتھ تعاون کرو اور اگر کج روی اختیار کروں تو مجھے سیدھا کر دو۔ سچائی امانت ہے، جھوٹ خیانت ہے۔ تمہارا ضعیف فرد بھی میرے نزدیک قوی ہے جب تک میں دوسروں سے اس کا حق نہ دلا دوں، اور تمہارا قوی شخص بھی میرے نزدیک ضعیف ہے یہاں تک کہ میں اس سے دوسروں کا حق نہ حاصل کر لوں۔ ان شاء اللہ۔یاد رکھو جو قوم جہاد فی سبیل اللہ چھوڑ دیتی ہے اللہ اس کو ذلیل وخوار کر |
Book Name | سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | شمیم احمد خلییل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 512 |
Introduction |