تھی۔ وہاں کوئی فتنہ وفساد، تکذیب، سازش، بدعہدی اور نقض اتفاق نہ تھا بلکہ تسلیم ورضا کا ماحول تھا، نصوص شرعیہ ہی اصل مرجع تھے۔[1] ڈاکٹر توفیق شاوی نے واقعہ سقیفہ سے بعض ان مثالوں پر استدلال کیا ہے جو خلفائے راشدین کے دور میں اجتماعی شورائیت سے وقوع پذیر ہوئی ہیں: سقیفہ بنو ساعدہ میں اس شورائیت کے اصول پر عمل کرتے ہوئے جس کی قرآن نے تنصیص فرمائی ہے، پہلی قرارداد جو پاس کی گئی وہ یہ تھی کہ نظام حکومت اور دستور سلطنت آزاد شورائیت سے پاس ہوگا۔ اسی لیے یہ اصول محل اجماع رہا اور اس اجماع کی اصل وہ قرآنی نصوص ہیں جو شورائیت کو فرض قرار دیتی ہیں، یعنی اس اجماع نے اسلامی نظام حکومت کے پہلے شرعی اصول شورائیت کو واضح کیا اور اسے ضروری قرار دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد یہ پہلا دستوری مبتدا تھا جو بالاجماع مقرر ہوا اور یہ اجماع کتاب وسنت میں شورائیت کو واجب کرنے والے نصوص کی تائید وتطبیق تھی۔ سقیفہ بنو ساعدہ کے اجتماع میں دوسری قرارداد جو پاس ہوئی وہ یہ تھی کہ خلیفۂ وقت کا انتخاب اور اس کے اختیارات کی تحدید شورائیت کے ذریعہ سے عمل میں آئے۔ یعنی آزاد بیعت جو حاکم کو ان شرائط اور قیود کے ساتھ زمام حکومت سنبھالنے کی صلاحیت تفویض کرتی ہے جو عقد بیعت یعنی دستور کے ضمن میں آتے ہیں۔ یہ دوسرا دستوری اصول تھا جو بالاجماع پہلی قرارداد کی طرح پاس کیا گیا۔ مذکورہ دونوں اصولوں کو نافذ کرتے ہوئے اس اجتماع میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بحیثیت خلیفہ اوّل منتخب کیا گیا۔ [2] پھر اس انتخاب نے آخری شکل اس وقت اختیار کی جب عام بیعت عمل میں آگئی، یعنی جمہور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے دوسرے دن مسجد نبوی میں موافقت کی اور پھر ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان شرائط کے ساتھ اس کو قبول کیا جنہیں اس مناسبت سے دیے گئے اپنے پہلے خطبہ میں ذکر فرمایا تھا۔[3] ان شاء اللہ ہم انہیں بالتفصیل ذکر کریں گے۔ |
Book Name | سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | شمیم احمد خلییل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 512 |
Introduction |