Maktaba Wahhabi

323 - 512
جائے۔ نیز یہ شرط ضروری تھی تاکہ اس بات کی ضمانت رہے کہ وہ دوبارہ تمرد وعصیان کا شکار نہیں ہوں گے۔[1] عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کا اپنی قوم کو نصیحت اور ان کے ساتھ نفسیاتی جنگ: عدی رضی اللہ عنہ اپنی قوم کے پاس پہنچے، انہیں اسلام کی طرف لوٹنے کی دعوت دی۔ انہوں نے جواب دیا: ہم ابوفصیل[2] سے بیعت نہ کریں گے۔ اس پر عدی رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: تمہارے پاس ایسے لوگ پہنچے ہیں جو تمہاری عورتوں کو حلال کر لیں گے اور پھر تم ان کی کنیت ابوفحل رکھنے پر مجبور ہو گے۔ اب تم سمجھو۔ قوم کے لوگوں نے عرض کیا: آپ اس فوج کو ابھی روکیں تاکہ ان لوگوں کو ہم واپس بلا لیں جو ہم میں سے بزاخہ میں طلیحہ کے پاس پہنچ چکے ہیں کیونکہ اگر ہم نے ابھی طلیحہ کی مخالفت کی تو جو ہمارے لوگ اس کے پاس ہیں یا تو ان کو قتل کر دے گا یا پھر انہیں یرغمال بنا لے گا۔ عدی رضی اللہ عنہ نے ’’سنح‘‘ میں خالد رضی اللہ عنہ سے ملاقات کی اور ان سے کہا: ابھی آپ تین دن رکے رہیں، میں آپ کے لیے پانچ سو جنگجوجمع کروں گا، جن کے ساتھ آپ اپنے دشمن سے جنگ کریں، یہ اس سے بہتر ہے کہ آپ انہیں جہنم رسید کر دیں اور ان کے ساتھ مشغول ہو جائیں۔ خالد رضی اللہ عنہ نے ایسا ہی کیا، پھر عدی رضی اللہ عنہ ان کے اسلام کی خبر لے کر خالد رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے۔[3] اس طرح عدی رضی اللہ عنہ نے اپنے قبیلہ کی دونوں شاخوں بنو غوث اور بنو جدیلہ کو اس بات پر مطمئن کر لیا کہ وہ طلیحہ کے معسکر سے نکل کر خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی فوج کے ساتھ شامل ہو جائیں۔ بنو طے کے مؤقف میں یہ تبدیلی وانقلاب معرکہ بزاخہ کے نتائج میں بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ عدی رضی اللہ عنہ کا یہ عظیم کارنامہ تاریخ کے صفحات میں ان کے پہلے کارنامے کے ساتھ نقش ہو گیا جب وہ اپنی قوم کی زکوٰۃ لے کر ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے اور اس وقت مسلمانوں کو مال کی شدید ضرورت تھی۔ اوّل دن سے آپ کا اسلام صاحب علم و فہم کا اسلام تھا۔ آپ نے پوری قناعت اور رضا مندی کے ساتھ اسلام قبول کیا تھا۔ اسلام اور مسلمانوں کے انتصار اور فتح یابی کا اوّل دن سے یقین تھا جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں قبول اسلام کے وقت بشارت سنائی تھی۔ بنو عدی کے اعدائے اسلام کی مدد سے پھرنے میں ان کے قوی ایمان کا بڑا ہاتھ تھا۔ اس سلسلہ میں ان کی قناعت احتیاط و انتظار کی حد تک نہ تھی کہ کس کو غلبہ حاصل ہوتا ہے بلکہ ان میں سے ڈیڑھ ہزار نے مسلم فوج میں شمولیت اختیار کی جو قوم میں ان کے انتہائی درجہ اثر و رسوخ کا پتہ دیتی ہے۔[4] اور ایک روایت میں ہے کہ ان کی قوم کے لوگوں نے خالد رضی اللہ عنہ سے مطالبہ کیا کہ انہیں بنوقیس سے لڑنے کی اجازت دی جائے، کیونکہ بنو اسد ان کے حلیف ہیں، ان سے لڑنا مناسب نہیں۔ اس پر خالد رضی اللہ عنہ نے فرمایا: دونوں میں سے جس کے ساتھ پسند کرو ڈٹ جاؤ۔ بنوقیس بنو اسد سے کمزور نہیں۔ اس پر عدی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اگر میرے خاندان کے قریب ترین لوگ اس دین کو چھوڑ دیں تو میں ان سے قتال کروں گا۔ اللہ کی قسم یہ نہیں ہو سکتا
Flag Counter