ہے۔ بنو طے کے ساتھ معرکہ شروع ہونے سے قبل اس کے نتیجہ کا فیصلہ کر دیا اور پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ کا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو یہ حکم دینا کہ بنو طے سے جنگ کا آغاز کریں۔ حالانکہ وہ طلیحہ کے لشکر سے دور آباد تھے، کامیاب جنگی منصوبہ تھا اور یہ اس لیے تھا کہ بنو طے طلیحہ کے ساتھ انضمام نہ کر سکیں اور جو انضمام کر چکے ہیں وہ اس سے اپنے قبیلہ سے دفاع کی خاطر علیحدگی اختیار کرنے پر مجبور ہو جائیں اور پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ سے ملیں، یہ انتہائی ماہرانہ جنگی منصوبہ بندی تھی تاکہ اس طرح وہ اس قبیلہ کو اور اس کے پڑوسی دیگر قبائل کو مرعوب اور خوفزدہ کر سکیں۔ اس مہم کے لیے ابو سلیمان خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کا انتخاب فرمایا، جن کا پرچم کبھی سرنگوں نہیں ہوا۔[1] اس سے افراد و قائدین کے انتخاب میں آپ کی مہارت نمایاں ہوتی ہے اور معرکہ بزاخہ کے خاتمہ کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ نے خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو جو خط ارسال فرمایا اس میں بہت سے فوائد ہیں: خالد رضی اللہ عنہ کو دعا دی، اس سے ان کی اچھی تعریف و ثنا سمجھ میں آتی ہے۔ اس طرح اس خط میں آپ نے انہیں تقویٰ کا حکم فرمایا جو انسان کو خواہشات کی پیروی اور خطا و لغزش میں واقع ہونے سے محفوظ رکھتا ہے۔ انہیں دشمن کے ساتھ بہادری اور دلیری اختیار کرنے کا حکم فرمایا کیونکہ وہ لوگ اپنے طغیان و سرکشی میں ابھی مست تھے پس یہ قوی مؤقف ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پختہ عزم اور گہری بصیرت پر دلالت کرتا ہے۔ وہاں بہت سے قبائل تھے جو ابھی حق و باطل، ہدایت وضلالت، خیر و شر اور ایمان و کفر کے مابین حیرت وتردد کا شکار تھے۔ ان کو اس کی سخت ضرورت تھی کہ ان کی تادیب کی جائے اور انہیں سختی کے ساتھ روکا جائے تاکہ ان کا طغیان ختم ہو جائے۔ یہ مؤقف ابوبکر رضی اللہ عنہ سے زبردست قوت، پختہ عزم اور سرعت کا متقاضی تھا، اس لیے آپ نے سختی کے مقام پر سختی اور نرمی کے مقام پر نرمی اختیار کی۔ شاعر نے کیا خوب کہا ہے: ووضعُ النَّدیٰ فی موضع السَّیف للنَّدی مُضرُّ کوضعِ السیف فی موضع النَّدی[2] ’’شبنم کو تلوار کی جگہ رکھنا شبنم کے لیے نقصان دہ ہے جس طرح تلوار کو شبنم کی جگہ رکھنا ضرر رساں ہے۔‘‘ ابوبکر رضی اللہ عنہ کا ان محاربین کی خود سپردگی اور صلح قبول نہ کرنا اور کھلی جنگ یا رسوا کن منصوبہ سے کم پر تیار نہ ہونا اسلام کے غلبہ وعزت اور حکومت کی ہیبت وسطوت کا اظہار ہے۔ آپ نے صلح کے لیے ان کے سامنے بڑی کڑی شرائط رکھیں ان شرائط میں سب سے سخت شرط یہ تھی کہ ان کے اسلحہ اور جانور سب ضبط کر لیے جائیں گے اور یہ عارضی شرط تھی، جب تک ان کی توبہ اور اسلامی خلافت کی فرماں برداری کی صداقت واضح نہ ہو |
Book Name | سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | شمیم احمد خلییل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 512 |
Introduction |