بکریوں کا دودھ نکالنا، اندھی بڑھیا اور ام ایمن کی زیارت: خلافت ملنے سے قبل آپ محلے والوں کی بکریوں کا دودھ نکال دیا کرتے تھے، جب خلیفہ بنا دیے گئے تو محلے کی ایک خاتون نے کہا: ’’اب تو ابوبکر ہماری بکریوں کا دودھ نہیں دوہیں گے؟‘‘ آپ نے اس کی یہ بات سن لی، فرمایا: ’’میں ضرور دودھ دوہیا کروں گا اور میں امید کرتا ہوں کہ میری یہ نئی ذمہ داری گذشتہ عادت واخلاق سے نہیں روکے گی۔‘‘ پھر آپ حسب سابق دودھ نکال دیا کرتے تھے۔ جب خواتین بکریاں لے کر آتیں تو آپ فرماتے: ’’دور سے دودھ نکالوں یا قریب سے؟‘‘ جب وہ کہتیں ’’دور سے‘‘ تو دودھ کا برتن تھن سے دور کر کے دودھ نکالتے، جس کی وجہ سے جھاگ زیادہ ہوتا، اور اگر وہ کہتیں ’’قریب سے‘‘، تو آپ برتن کو تھن سے قریب کر کے دودھ نکالتے، جس کی وجہ سے جھاگ نہیں بنتی۔ آپ ایسا ہی چھ ماہ تک کرتے رہے، یہاں تک کہ مقام سنح سے مدینہ منتقل ہو گئے۔[1] اس خبر کے اندر ابوبکر رضی اللہ عنہ کے چند اخلاق بیان کیے گئے ہیں یہ انتہائی درجہ کی تواضع ہے اور پھر ایسے شخص کی طرف سے جو عمر میں بھی بڑا ہے اور شرف وجاہ میں بھی۔ کیونکہ آپ مسلمانوں کے خلیفہ ہیں، آپ اس بات کے انتہائی حریص تھے کہ خلافت کی وجہ سے لوگوں کے ساتھ ان کے تعامل میں فرق نہ آنے پائے، اگرچہ اس میں وقت لگے۔ اور اس سے اس بات کا بھی پتہ چلتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو نیکی واحسان کے اعمال کا کس قدر اہتمام تھا اگرچہ یہ وقت اور محنت کا متقاضی ہو۔[2] یہ ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں جنہوں نے عزم صادق اور استقامت نادر کے ذریعہ سے جزیرہ عرب پر غلبہ حاصل کیا اور اسے اللہ کے دین کے تابع کر دیا، پھر ان کی افواج تیار کر کے روم و ایران کی عظیم سلطنتوں کی طرف روانہ کیں، جنہوں نے اسلام کے پرچم تلے ان سے قتال کر کے ان پر غلبہ حاصل کیا، ابوبکر رضی اللہ عنہ محلے والوں کی بکریوں کا دودھ دوہ دیتے ہیں اور فرماتے ہیں: مجھے امید ہے کہ مجھے جو منصب وذمہ داری ملی ہے، اس سے میرے اس معمول میں فرق نہیں آئے گا۔ اور آپ کی ذمہ داری کچھ معمولی نہ تھی بلکہ یہ ذمہ داری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خلافت اور عرب کی سیادت اور فوج کی قیادت تھی، جو زمین سے فارسی جبروت اور رومی عظمت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے اٹھ کھڑی ہوئی اور اس کی جگہ عدل، علم اور تہذیب و تمدن کا قصر تعمیر کرنے میں لگ گئی، پھر بھی آپ امید کرتے |
Book Name | سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | شمیم احمد خلییل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 512 |
Introduction |