Maktaba Wahhabi

233 - 512
تمہارے لیے اللہ سے مغفرت طلب کرتا ہوں۔‘‘[1] ابوبکر رضی اللہ عنہ معاشرہ کی سدھار و اصلاح کا اس طرح اہتمام فرماتے تھے، مسلمانوں کو وعظ ونصیحت کرتے، ان کو خیر پر ابھارتے، بھلائی کا حکم دیتے، برائی سے روکتے تھے۔ یہاں چند نمونوں پر اکتفا کیا گیا ہے ورنہ آپ کی سیرت اس سے بھری پڑی ہے۔ عہد صدیقی میں محکمہ قضاء عہد صدیقی خلفائے راشدین کے دور کا آغاز ہے۔ اس حیثیت سے اس کی اہمیت نمایاں ہے، یہ دور عہد نبوی سے انتہائی قریب اور متصل ہے۔ خلفائے راشدین کا دور بالعموم اور شعبہ قضاء خاص طور پر، عصر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قضاء کا امتداد ہے۔ اس دور میں مکمل طریقہ سے قضاء کے سلسلہ میں جو کچھ عہد نبوی میں ثابت ہوا، اس پر محافظت کی گئی اور من وعن اس کو نصاً ومعناً نافذ کیا گیا۔ قضاء کے سلسلہ میں خلفائے راشدین کے دور کی اہمیت دو اساسی امور میں نمایاں ہوتی ہے: قضاء سے متعلق عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے نصوص پر محافظت، اس کا نفاذ، اس کے مطابق عمل اور اس کا مکمل التزام۔ عدلیہ کے لیے جدید قوانین وضع کیے گئے تاکہ وسیع اسلامی سلطنت کی اساس مضبوط ہو اور نو آمدہ متنوع مسائل کا حل پیش کیا جا سکے۔[2] ابوبکر رضی اللہ عنہ خود فیصلے کرتے۔ آپ کے دور میں قضاء کو ولایت عامہ سے الگ نہیں کیا گیا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور کی طرح قضاء کے لیے مستقل اور خاص ادارہ نہ تھا۔ کیونکہ لوگ دور نبوت سے قریب تھے، لوگ اسلام پر قائم تھے، ان کی زندگیاں شریعت کے مطابق گذر رہی تھیں، لڑائیاں جھگڑے شاذ و نادر ہوتے تھے۔ مدینہ میں ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو قضا کی ذمہ داری سونپ رکھی تھی تاکہ بعض قضا یا میں آپ سے مدد لیں۔ لیکن قضاء میں عمر رضی اللہ عنہ تنہا نہ تھے۔[3] ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان تمام قاضیوں اور گورنروں کو باقی رکھا جن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر کر رکھا تھا۔ وہ آپ کے عہد میں بھی اپنی ذمہ داری ادا کرتے رہے۔[4] عنقریب ہم گورنروں اور ان کے اعمال کا تذکرہ کریں گے۔ ان شاء اللہ عہد صدیقی میں مصادر قضاء یہ تھے: ۱۔ قرآن
Flag Counter