رسوائی ہے۔ امت کی زندگی کا راز رب کی اطاعت اور نبی کی سنت کی اقتداء میں پنہاں ہے۔[1] اہل ایمان کے درمیان ا ختلاف رونما ہونا اور کتاب وسنت کی طرف رجوع کر کے حل کرنا: اس واقعہ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ سچے اہل ایمان کے درمیان بھی بعض امور میں اختلاف رونما ہو سکتا ہے۔ ان ناگفتہ بہ حالات میں لشکر اسامہ کو روانہ کرنے سے متعلق صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے درمیان اختلاف رونما ہوا اور اسامہ رضی اللہ عنہ کی امارت کے سلسلہ میں اقوال مختلف ہوئے لیکن اختلاف رائے ان کے درمیان آپسی بغض وکینہ، قطع تعلق، قتال اور لڑائی جھگڑے کا سبب نہ بنا اور ان میں سے کوئی بھی اپنی رائے پر، اس کی غلطی واضح ہو جانے کے بعد، ڈٹا نہیں رہا۔[2] اور لشکر اسامہ کو اس کی مہم پر بھیجنے کے سلسلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی طرف جب ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس اختلاف کو لوٹایا اور ان کے سامنے یہ واضح کیا کہ حالات کیسے ہی ناسازگار کیوں نہ ہوں وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کو نافذ کرنے میں کوتاہی نہیں کر سکتے، تو تمام صحابہ کرام نے آپ کی اس وضاحت کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کو قبول فرما لیا اور اپنی اپنی رائے کو چھوڑ دیا۔ اسی طرح اس واقعہ سے یہ معلوم ہوا کہ اکثریت کی رائے اگر نص کے مخالف ہو تو اس کا اعتبار نہ ہوگا چنانچہ عام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی یہ رائے تھی کہ لشکر اسامہ کو روانہ نہ کیا جائے، انہوں نے صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے عرض کیا: قبائل عرب آپ کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں، آپ لوگوں کو یہاں سے بھیج کر تنہا کچھ نہیں کر سکتے۔ [3] یہ کہنے والے عام لوگ نہ تھے بلکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تھے جو روئے زمین پر انبیاء و رسل علیہم السلام کے بعد افضل ترین لوگ ہیں، لیکن ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کی رائے نہ مانی اور یہ واضح فرمایا کہ ان لوگوں کی رائے کے مقابلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مکرم ومعظم اور واجب العمل ہے۔[4] یہ حقیقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے واقعہ میں بھی واضح ہو چکی ہے کہ اکثر صحابہ جن میں عمر رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے، ان کا کہنا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات نہیں ہوئی ہے اور بہت تھوڑے صحابہ کا کہنا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا چکے ہیں۔ انھی میں سے ابوبکر رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ یہاں ہم نے دیکھا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نص قرآنی پر ڈٹ گئے اور اکثریت کی رائے کی غلطی کو واضح کیا جو یہ کہہ رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات نہیں ہوئی ہے۔[5] حافظ ابن حجر رحمہ اللہ وفات نبوی کے سلسلہ میں اکثریت کی رائے پر تعلیق (نوٹ) لگاتے ہوئے فرماتے ہیں: اجتہاد میں اقلیت صحیح نتیجہ پر پہنچ سکتی ہے اور اکثریت غلطی کا شکار ہو سکتی ہے، لہٰذا اکثریت کی بنیاد پر ترجیح متعین |
Book Name | سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | شمیم احمد خلییل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 512 |
Introduction |