’’ملکیت، تخلیق اور بندگی کے اعتبار سے (سب کچھ ان ہی کے لیے تو ہے)۔‘‘
۶: شیخ ابوبکر جزائری لکھتے ہیں:
’’خَلْقًا وَّمِلْکًا وَّتَصَرُّفًا۔‘‘[1]
’’تخلیق، ملکیت اور انتظام و انصرام کے اعتبار سے (سب کچھ ان ہی کے لیے ہے)۔‘‘
ب: خبر [لَہُ] کے تقدیم کی حکمت:
یہ جملہ اسمیہ ہے اور اس میں [مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ] مبتدا اور [لَہٗ] اس کی خبر ہے۔ عام قاعدے کے مطابق مبتدا کو پہلے اور خبر کو بعد میں آنا چاہیے، لیکن اس جملے میں خبر پہلے آئی ہے۔
جملے میں تقدیم و تاخیر [حصر] کا فائدہ دیتا ہے، جس کی بنا پر اس جملے میں دو معانی ہیں:
پہلا معنٰی: آسمانوں اور زمین میں موجود ہر چیز کا اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہونا۔
دوسرا معنٰی: آسمانوں اور زمین میں موجود تمام چیزوں کا اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کی ملکیت نہ ہونا۔
ج: اسم موصول [مَا] اور اس کے تکرار کی فائدہ:
مَا فِیْ السَّمٰوٰت) میں اسم موصول [مَا] ذکر کیا گیا ہے، تاکہ وہ آسمانوں میں موجود ہر چیز کو اپنے اندر سمیٹ لے، کیونکہ [مَا] عموم کے صیغوں میں سے ہے۔ اور یہی بات (وَمَا فِیْ الْاَرْضِ) میں ہے۔ اس بارے میں علامہ ابوحیان اندلسی لکھتے ہیں:
’’وَمَا تَشْمَلُ کُلَّ مَوْجَوْدٍ۔‘‘[2]
|