کے قتل کا منصوبہ تیار کیا اور جب پہلی مرتبہ اسے گرفتار کیا گیا تو اس نے بنو حنیفہ سے عہد کیا کہ اب دوبارہ ایسا نہیں کرے گا لیکن جب رات کو بندھن سے چھوٹ گیا جس میں اس کو اس کی غداری کے خوف سے باندھ دیا گیا تھا، اس نے اپنا عہد توڑا اور خالد رضی اللہ عنہ کے معسکر کی طرف چلا، محافظین چیخ اٹھے، آواز سن کر بنو حنیفہ اٹھ کھڑے ہوئے اور اس کا پیچھا کیا اور ایک باغ میں پا لیا، اس نے ان کے خلاف تلوار چلائی، انہوں نے پتھروں سے اسے گھیر لیا اور اس کے حلق پر تلوار پھیر دی، جس سے اس کی رگیں کٹ گئیں، پھر کنویں میں گر کر مر گیا۔[1] یہ باطل سے دفاع کے سلسلہ میں جاہلیت کے عناد کی مثال ہے۔[2] بنو حنیفہ کا وفد صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے پاس: جب بنو حنیفہ کا وفد صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچا، آپ نے ان سے فرمایا: مسیلمہ کے قرآن میں سے کچھ مجھے سناؤ۔ انہوں نے عرض کیا: اے خلیفہ رسول! آپ ہمیں اس سلسلہ میں معاف کریں۔ آپ نے فرمایا: نہیں ضروری ہے۔ اس پر انہوں نے بتلایا کہ وہ کہتا تھا: ((یا ضفدع بنت الضِّفدعین، نقی ما تنقِّین، لا الماء تکدِّرین، ولا الشارب تمنعین، راسک فی الماء وذنبک فی الطِّین۔)) ’’اے مینڈکوں کی بیٹی! ٹرٹر کرتی رہ، نہ تو پانی گدلا کرتی ہے اور نہ پینے والے کو روکتی ہے، تیرا سر پانی میں اور دم مٹی میں ہے۔‘‘ اور کہتا تھا: ((والمبذرات زرعا، والحاصدات حصداء، والذاریات قمحا، والطاحنات طحنا، والخابزات خبزا، والثاردات ثردا، واللاقمات لقما، إہالۃً وسمنا۔ لقد فضلتم علی اہل الوبر، وما سبقکم اہل المدر، ریفکم فامنعوہ، والمعترَّ فآووہ، والناعی فواسوہ۔))[3] ’’قسم ہے کھیتی بونے والوں کی، فصل کاٹنے والوں کی، گندم کو پھیلانے والوں کی، آٹا تیار کرنے والوں کی، روٹی پکانے والوں کی، ثرید تیار کرنے والوں کی، لقمہ بنانے والوں کی، چربی اور گھی سے، تم بادیہ نشینوں پر سبقت لے گئے اور شہر والے تم سے آگے نہ بڑھے، اپنے دیہات کی حفاظت کرو اور محتاج کو پناہ دو، جو موت کی خبر دے اس کے ساتھ مواسات کرو۔‘‘ اور انہوں نے اس طرح کی دیگر خرافات کا ذکر کیا جن سے کھیلنے والے بچے بھی گریز کرتے ہیں۔ ان سے |
Book Name | سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | شمیم احمد خلییل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 512 |
Introduction |