ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ خانہ کعبہ کی زیارت کے لیے نکلے ہیں کسی کو قتل کرنا یا جنگ کرنا مقصود نہیں ہے لہٰذا آپ زیارت کے لیے آگے بڑھیں جو ہمیں اس سے روکے گا ہم اس سے قتال کریں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمان جاری کر دیا: اللہ کا نام لے کر آگے بڑھو۔ قریش کے لوگ غضبناک ہو گئے اور قسم کھا لی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ میں داخل نہیں ہونے دیں گے۔ پھر اہل مکہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مابین گفتگو اس سلسلہ میں شروع ہوئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ عزم کر رکھا تھا کہ اہل مکہ صلہ رحمی سے متعلق جس چیز کا مطالبہ کریں گے اس کو قبول کروں گا۔[1] الف۔ مصالحانہ گفتگو: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مصالحانہ گفتگو کی خاطر قریش کے وفود کی آمد شروع ہو گئی، سب سے پہلے بنو خزاعہ میں سے بدیل بن ورقاء آیا، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مقاصد کا اس کو علم ہوا تو وہ قریش کے پاس واپس ہو گیا پھر مکرز بن حفص، پھر حلیس بن علقمہ، پھر عروہ بن مسعود ثقفی آیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور عروہ بن مسعود ثقفی کے مابین گفتگو کا آغاز ہوا، اس گفتگو میں ابوبکر اور بعض دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی شرکت کی۔ [2] عروہ نے کہا: اے محمد! ان اوباش لوگوں کو لے کر آئے ہو تاکہ اپنے خاندان کا خاتمہ کر دو؟ یاد رکھو قریش کے لوگ مرد و خواتین، چھوٹے بڑے سب نکل چکے ہیں، انہوں نے چیتے کے چمڑے پہن رکھے ہیں اور اللہ سے عہد کر رکھا ہے کہ تمہیں مکہ داخل نہ ہونے دیں گے اور اللہ کی قسم یہ لوگ یعنی صحابہ آپ کا ساتھ چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوں گے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ برداشت نہ کر سکے، فرمایا: ((امصص بظر اللات)) [3] ’’لات کی بر(پیشاب گاہ) چاٹ‘‘ کیا ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ چھوڑ کر بھاگ جائیں گے؟[4] عروہ نے کہا: یہ کون ہے؟ جواب ملا: ابوبکر ہیں۔ اس نے کہا: اس ذات کی قسم میری جان جس کے ہاتھ میں ہے اگر تمہارا حسان مجھ پر نہ ہوتا تو میں ضرور تمہارا جواب دیتا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ماضی میں اس پر احسان کیا تھا اس کی رعایت میں اس نے جواب نہ دیا۔ یہاں بعض علماء نے یہ استدلال کیا ہے کہ ضرورت ومصلحت کے پیش نظر شرمگاہ کو صریح لفظ میں ادا کرنا جائز ہے اور یہ ممنوع فحش کلامی میں داخل نہیں ہے۔[5] عروہ بن مسعود نے اس بات کی پوری کوشش کی کہ صحابہ کرام کے خلاف نفسیاتی جنگ شروع کر دے تاکہ وہ معنوی اعتبار سے شکست خوردہ ہو جائیں، اسی لیے اس نے قریش کی عسکری قوت کو مبالغہ آرائی کرتے ہوئے بیان کیا اور قریش کے موقف کی ایسی تصویر کشی کی جس سے یہ نمایاں ہوتا تھا کہ وہ ضرور فتح یاب ہوں گے اور |
Book Name | سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | شمیم احمد خلییل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 512 |
Introduction |