کو بھی مسلمانوں کے ساتھ دیگر لڑائیوں میں اس کا اندازہ ہو چکا تھا چنانچہ طلیحہ اسدی نے معرکہ بزاخہ میں خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے مقابلہ میں شکست کھانے کے بعد اپنی قوم سے بڑے تعجب سے پوچھا: تمہیں کیا ہو گیا کیوں شکست کھا گئے؟ ان میں سے ایک شخص نے جواب دیا: اس کی وجہ میں بتاتا ہوں، ہم میں سے ہر فرد یہ چاہتا ہے کہ اس کا ساتھی اس سے پہلے مرے اور ہمارا مقابلہ جن لوگوں سے ہے ان کا ہر فرد یہ پسند کرتا ہے کہ اس کی موت اس کے ساتھی سے پہلے آئے۔[1] ۲: بنو طے کا اسلامی فوج میں شمولیت اختیار کرنا مسلمانوں کی تقویت اور دشمن کے ضعف کا بنیادی سبب بنا، اسی طرح عکاشہ میں محصن اور ثابت بن اقرم رضی اللہ عنہما کی شہادت سے مسلمانوں کا غصہ بھڑک اٹھا، اور انہیں دشمن سے قتال پر تیار کر دیا اور اسی طرح ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ’’توریہ‘‘ کا بھی طے پر اثر ہوا اور وہ اپنے حلیفوں کی مدد نہ کرنے اور اپنے مقامات پر باقی رہنے کے لیے تیار ہو گئے چنانچہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو اس چکر میں رکھا کہ وہ فوج کے اصل محاذ سے ہٹ کر خیبر کی طرف جا رہے ہیں۔ اسی طرح قبیلہ طے کو ان کی مرضی کے مطابق بنوقیس سے قتال کی اجازت دینے کا بھی گہرا اثر ہوا کیونکہ اگر خالد رضی اللہ عنہ انہیں بنو اسد سے قتال پر مجبور کرتے جیسا کہ عدی رضی اللہ عنہ کا خیال تھا تو بنوطے جنگ میں بڑی کوتاہی اور تقصیر کا شکار ہو جاتے۔[2] اس کے علاوہ دیگر اسباب بھی تھے۔ معرکہ بزاخہ کے نتائج: مدعیان نبوت میں سے ایک کی قوت کا خاتمہ ہوا اور عربوں کی بڑی جماعت اسلام میں واپس آگئی۔ بزاخہ کی شکست کے بعد بنو عامر یہ کہتے ہوئے واپس ہوئے کہ: ہم جہاں سے نکلے ہیں وہاں داخل ہو جائیں گے۔ خالد رضی اللہ عنہ نے ان سے اس شرط پر بیعت لی جس پر اہل بزاخہ؛ اسد، غطفان اور طے سے ان سے قبل بیعت لی تھی اور انہوں نے اسلام پر اپنے ہاتھ ان کے ہاتھوں میں ڈال دیے۔ خالد رضی اللہ عنہ نے اسد، غطفان، ہوازن، سلیم اور طے سے یہ شرط لگائی کہ ان لوگوں کو حاضر کریں گے جنہوں نے ارتداد کی حالت میں مسلمانوں کو نذر آتش کیا، ان کا مثلہ کیا اور ان پر زیادتی کی ہے۔ انہوں نے ان کو حاضر کیا۔ خالد رضی اللہ عنہ نے ان کے جرم کی پاداش میں ان سے قصاص لیتے ہوئے کچھ کو نذر آتش کر دیا، کچھ کو پتھر سے کچل کر مارا، کچھ کو پہاڑ سے دھکیل کر ختم کر دیا، کچھ کو کنویں میں اوندھا لٹکا دیا اور کچھ کو تیر سے مارا۔ بقرہ بن ہبیرہ اور قیدیوں کو دارالخلافہ مدینہ روانہ کیا اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کو خط تحریر کیا: ’’بنو عامر اعراض کے بعد واپس آگئے ہیں اور تردد و انتظار کے بعد اسلام میں داخل ہو گئے ہیں۔ |
Book Name | سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | شمیم احمد خلییل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 512 |
Introduction |