اس سے کم پر میں کسی سے راضی نہیں ہوا، خواہ اس نے مجھ سے قتال کیا ہو یا مصالحت کی ہو کہ وہ ان لوگوں کو میرے پاس لا حاضر کریں جنہوں نے مسلمانوں کے ساتھ زیادتیاں کی ہیں۔ پھر ان مجرموں کو میں نے ہر طرح قتل کر دیا اور آپ کے پاس بقرہ اور اس کے ساتھیوں کو بھیج رہا ہوں۔‘‘[1] ان قیدیوں میں عیینہ بن حصن بھی تھا، خالد رضی اللہ عنہ نے اسے سخت جکڑنے کا حکم دیا تاکہ عبرت حاصل ہو۔ جس وقت وہ مدینہ میں داخل ہوا اس کے دونوں ہاتھ گردن میں بندھے ہوئے تھے تاکہ اس پر عتاب ہو اور دوسروں کو خوف پیدا ہو۔ جب وہ اس کیفیت میں مدینہ میں داخل ہوا تو مدینہ کے بچے اس کا مذاق اڑانے لگے اور یہ کہتے ہوئے اپنے ننھے ننھے ہاتھوں سے مکے رسید کرنے لگے: اللہ کے دشمن! تو اسلام سے مرتد ہو گیا۔ وہ جواب دیتا: میں کبھی ایمان لایا ہی نہ تھا۔ اس کو خلیفہ رسول ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس حاضر کیا گیا، آپ نے اس کے ساتھ عفو و درگذر کا ایسا برتاؤ کیا کہ وہ اس کی تصدیق نہ کر سکا۔ آپ نے اس کے ہاتھ کھولنے کا حکم دیا پھر اس سے توبہ کرائی، عیینہ نے خالص توبہ کا اعلان کیا اور اپنی غلطیوں کا اعتراف کرتے ہوئے معذرت پیش کی اور اسلام لایا، پھر اچھی طرح اسلام پر کاربند رہا۔[2] طلیحہ بھاگا اور جا کر بنو کلب میں پناہ لی پھر اسلام قبول کیا اور بنو کلب ہی میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کی وفات تک مقیم رہا۔ وہ اس وقت اسلام لایا جب اس کو یہ خبر ملی کہ بنو اسد، بنو غطفان اور بنو عامر اسلام لا چکے ہیں۔ پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت میں عمرہ کے لیے مکہ روانہ ہوا، مدینہ کے گردونواح سے گذرا، لوگوں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو خبر دی کہ یہ طلیحہ جا رہا ہے۔ آپ نے فرمایا: میں کیا کروں! اس کو چھوڑو، اللہ نے اسے اسلام کی ہدایت دے دی ہے۔[3] اور ابن کثیر نے ذکر کیا ہے کہ طلیحہ اس کے بعد اسلام کی طرف لوٹ آیا اور دور صدیقی میں مکہ عمرہ کے لیے گیا اس نے شرم کی وجہ سے ابوبکر رضی اللہ عنہ کی زندگی میں آپ سے ملاقات نہ کی۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عراق و شام کی فتوحات میں گذشتہ مرتدین کو شرکت سے روک دیا تھا۔ یہ امت کے سلسلہ میں بطور احتیاط تھا کیونکہ جو ماضی میں ضلالت و گمراہی کا شکار ہوئے ہوں یا مسلمانوں کے ساتھ مکر وکید کیا ہو ان پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ ہو سکتا ہے ان کی فرماں برداری مسلمانوں کی قوت و طاقت کے پیش نظر رہی ہو۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ ان ائمہ میں سے ہیں جو لوگوں کے لیے نقوش راہ متعین کرتے ہیں اور لوگ ان کے اقوال و افعال کی اقتدا کرتے ہیں۔ اس لیے آپ امت کے مصالح کے پیش نظر احتیاط کے پہلو کو اختیار کرتے رہے اگرچہ اس سے بعض لوگوں کی شان میں تنقیص ہو رہی ہو۔[4] امت کو اس سے عظیم درس مل رہا ہے کہ ان لوگوں پر اعتماد نہ کیا جائے جو ماضی میں الحاد کا شکار ہوئے ہوں اور پھر بعد میں دین کی پابندی اختیار کی ہو۔ |
Book Name | سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | شمیم احمد خلییل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 512 |
Introduction |