Maktaba Wahhabi

158 - 512
تُظلُّنی اذا قلت فی کتاب اللہ ما لا اعلم۔))’’کون سی زمین مجھے جگہ دے گی اور کون سا آسمان مجھے سایہ دے گا اگر میں کتاب اللہ سے متعلق ایسی بات کہوں جس کا مجھے علم نہیں۔‘‘[1] ۳۔ آپ کی دعا وشدتِ تضرع: دعا بہت بڑا دروازہ ہے۔ جب یہ بندے کے لیے کھول دیا جاتا ہے تو خیر وبرکت کے دہانے بندے کے لیے کھل جاتے ہیں، اسی لیے ابوبکر رضی اللہ عنہ تعلق باللہ اور کثرت دعا کے انتہائی حریص تھے۔ اسی طرح دعا، اعداء پر نصرت وفتح کے قوی ترین اور عظیم اسباب وعوامل میں سے ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ ۚ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ (الغافر:۶۰) ’’اور تمہارے رب کا فرمان (سرزد ہو چکا) ہے کہ مجھ سے دعا کرو میں تمہاری دعاؤں کو قبول کروں گا، یقین مانو کہ جو لوگ میری عبادت سے خود سری کرتے ہیں وہ ابھی ذلیل ہو کر جہنم میں پہنچ جائیں گے۔‘‘ اور فرمایا: وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ ۖ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ ۖفَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ (البقرۃ: ۱۸۶) ’’جب میرے بندے میرے بارے میں آپ سے سوال کریں تو یقینا میں قریب ہوں، ہر پکارنے والے کی پکار کو جب بھی وہ مجھے پکارے، قبول کرتا ہوں۔ اس لیے لوگوں کو بھی چاہیے کہ وہ میری بات مان لیا کریں اور مجھ پر ایمان رکھیں، یہی ان کی بھلائی کا باعث ہے۔‘‘ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت کو لازم پکڑا اور انتہائی قریب سے دیکھا کہ کس طرح آپ اللہ تعالیٰ سے استغاثہ کرتے ہیں اور اس سے نصرت و مدد طلب کرتے ہیں۔ آپ اس عبادت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھنے کے بڑے حریص تھے۔ آپ اس کا اہتمام کرتے تھے کہ دعا وتسبیح کے الفاظ وصیغے وہی استعمال کریں جن کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حکم فرماتے ہیں، اور وہ آپ کو پسند ہیں، کیونکہ دعا، تسبیح وذکر اور درود وصلاۃ سے
Flag Counter