Maktaba Wahhabi

228 - 512
اس نے کہا: ائمہ سے کون لوگ مراد ہیں؟ آپ نے فرمایا: کیا تمہاری قوم میں سردار اور اشراف نہیں ہوا کرتے تھے جو لوگوں کو حکم دیتے تھے اور لوگ ان کی اطاعت کرتے تھے؟ اس نے کہا: کیوں نہیں، ضرور۔ آپ نے فرمایا: وہی لوگ لوگوں کے ائمہ ہیں۔[1] امام خطابی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: خاموش رہنا جاہلیت کی عبادتوں میں سے ہے۔ وہ رات اور دن کا اعتکاف کرتے اور خاموش رہتے تھے۔ اس سے اسلام میں منع کیا گیا اور اچھی گفتگو کرنے کا حکم دیا گیا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے اس قول سے استدلال کرتے ہوئے لوگوں نے یہ کہا ہے کہ جو قسم کھا لے کہ وہ بات نہیں کرے گا، اس کے لیے مستحب ہے کہ وہ بات کرے اور اس پر کوئی کفارہ نہیں ہے کیونکہ اس خاتون کو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کفارہ ادا کرنے کا حکم نہیں دیا۔ اور جس نے بات نہ کرنے کی نذر مانی اس کی نذر صحیح نہ ہو گی کیونکہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مطلقاً فرمایا ہے کہ یہ حلال نہیں ہے اور جاہلیت کا کام ہے، اسلام نے اس کو ختم کر دیا ہے۔ اور آپ ایسی بات اسی وقت کر سکتے ہیں جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں سنا ہو اور ایسی صورت میں یہ مرفوع کے حکم میں ہے۔[2] حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: یہ خاموشی کی فضیلت میں وارد شدہ احادیث کے معارض نہیں، کیونکہ مقاصدو اہداف کا اختلاف ہے۔ جس خاموشی کی طرف رغبت دلائی گئی ہے وہ باطل کلام کا ترک کرنا ہے اور اسی طرح اس مباح کلام کو ترک کرنا ہے جو باطل کی طرف لے جائے، اور جس خاموشی سے منع کیا گیا ہے وہ یہ کہ حق بات کو استطاعت کے باوجود نہ کہا جائے اور اسی طرح وہ مباح کلام جس کے دونوں پہلو برابر ہوں۔ واللہ اعلم[3] امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا اہتمام: ابوبکر رضی اللہ عنہ بھلائی کا حکم دیتے، برائی سے روکتے اور لوگوں کو جو چیز سمجھ میں نہ آتی اس کی وضاحت فرماتے۔ قیس بن ابی حازم سے روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد: {یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا عَلَیْکُمْ اَنْفُسَکُمْ لَا یَضُرُّکُمْ مَّنْ ضَلَّ اِذَا اہْتَدَیْتُمْ} (المائدۃ: ۱۰۵) ’’اے ایمان والو! اپنی فکر کرو، جب تم راہ راست پر چل رہے ہو تو جو گمراہ ہے اس سے تمہارا کوئی نقصان نہیں‘‘ کے بارے میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا: لوگو! تم یہ آیت پڑھتے ہو اور اس کا غلط مفہوم لیتے ہو۔ ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ((ان الناس اذا راوا الظالم فلم یاخذوا علی یدیہ او شک ان یعمہم اللہ بعقاب۔)) ’’جب لوگ ظالم کو ظلم کرتے دیکھیں اور اس کا ہاتھ نہ پکڑیں تو قریب ہے کہ ان سب پر اللہ کا عذاب ٹوٹ پڑے۔‘‘
Flag Counter