Maktaba Wahhabi

229 - 512
اور ایک روایت میں ہے: ((ان القوم اذا راوا المنکر فلم یُغَیِّروا عمَّہم اللہ بعقاب۔))[1] ’’یقینا جب لوگ برائی ہوتے ہوئے دیکھیں اور اس کو بدلنے کی کوشش نہ کریں تو ان سب پر اللہ کا عقاب ٹوٹ پڑے گا۔‘‘ امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ کا ارشاد {یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا عَلَیْکُمْ اَنْفُسَکُمْ… الآیۃ} امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے منافی نہیں ہے کیونکہ محققین علماء کے نزدیک اس آیت کا صحیح مطلب یہ ہے کہ اگر تم جن چیزوں کے مکلف قرار دیے گئے ہو بجا لاؤ تو دوسروں کی تقصیر و کوتاہی سے تم کو نقصان نہ ہوگا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: {وَ لَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرٰی} (الانعام: ۱۶۴) ’’کوئی کسی دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گا۔‘‘ اور جب بات ایسی ہے تو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ان امور میں سے ہے جس کا ہمیں مکلف بنایا گیا ہے، جب انسان نے یہ ذمہ داری ادا کی اور مخاطب نے اس کی بات نہ مانی تو اس پر اس کا وبال نہ ہوگا، بلکہ کرنے والے پر ہوگا۔ کیونکہ اس نے اپنی ذمہ داری ادا کر دی۔[2] آپ صحیح اور حق بات پر لوگوں کو ابھارتے۔ میمون بن مہران سے روایت ہے کہ ایک شخص نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو سلام کرتے ہوئے کہا: ((السلام علیک یا خلیفۃ رسول اللہ)) ’’اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ! آپ کو سلام۔‘‘ آپ نے فرمایا: ان سب کے درمیان صرف مجھی کو سلام کیا۔ [3] بسا اوقات سنت کو اس خوف سے چھوڑ دیتے کہ کہیں بے علم لوگ اس کو فرض و واجب نہ سمجھ بیٹھیں۔ حذیفہ بن اَسید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کو قربانی نہ کرتے ہوئے دیکھا، اس خوف سے کہ کہیں لوگ اس کو ان کی اقتداء میں واجب سمجھ کر نہ کرنے لگیں۔[4] آپ اپنے لخت جگر عبدالرحمن کو پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی وصیت کرتے رہتے، ایک دن دیکھا کہ وہ اپنے پڑوسی سے جھگڑ رہے ہیں، فرمایا: اپنے پڑوسی سے جھگڑو نہیں، یہ باقی رہے گا اور لوگ ختم ہو جائیں گے۔[5]
Flag Counter