Maktaba Wahhabi

230 - 512
اپنے والد کے بڑے فرمانبردار تھے۔ جب آپ نے رجب ۱۲ہجری میں عمرہ کیا تومکہ میں چاشت کے وقت داخل ہوئے، اپنے گھر تشریف لے گئے، آپ کے والد ابو قحافہ رضی اللہ عنہ اپنے گھر کے دروازے پر تشریف فرما تھے، ان کو نوجوان گھیرے ہوئے تھے، لوگوں نے انہیں بتایا: یہ آپ کے بیٹے آرہے ہیں۔ انہوں نے آپ کے استقبال میں اٹھنا چاہا، ابوبکر رضی اللہ عنہ جلدی سے اونٹنی بٹھائے بغیر اتر پڑے تاکہ والد کے ساتھ احسان و طاعت کا معاملہ کریں۔ لوگ آپ کو سلام کرنے آئے، ابوقحافہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اے عتیق! یہ لوگ آئے ہوئے ہیں، ان کے ساتھ حسن صحبت کا مظاہرہ کرو۔ آپ نے فرمایا: ابا جان! لاحول ولا قوۃ الا باللہ، میرے سر ایسی عظیم ذمہ داری ڈال دی گئی ہے جس کی مجھ میں طاقت نہیں۔ اللہ کی مدد کے بغیر اس کو ادا نہیں کیا جا سکتا……[1] آپ نماز اور اس میں خشوع وخضوع کا انتہائی اہتمام فرماتے اور حسن عبادت کے حریص تھے۔ جب نماز میں کھڑے ہوتے تو کسی طرف التفات نہ کرتے۔[2] اہل مکہ کہتے تھے: ابن جریج نے نماز عطاء سے سیکھی اور عطاء نے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے، اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے۔ اور امام عبدالرزاق کہا کرتے تھے کہ میں نے ابن جریج سے اچھی نماز پڑھتے ہوئے کسی کو نہیں پایا۔[3] انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فجر کی نماز لوگوں کو پڑھائی، اس کی دونوں رکعتوں میں سورہ بقرہ پڑھی، جب نماز سے فارغ ہوئے تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: ’’اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ! آپ نماز سے اس وقت فارغ ہوئے جب سورج نکلنا چاہتا ہے۔‘‘ فرمایا: ’’اگر سورج نکل بھی آتا تو کوئی بات نہیں، ہم غافلین میں سے نہ تھے۔‘‘[4] یعنی اللہ کے ذکر میں مشغول تھے۔ مصائب وآلام میں لوگوں کو صبر پر ابھارتے اور جس کا کوئی عزیز مر جاتا اس سے کہتے: تعزیت کے ساتھ مصیبت نہیں اور جزع وفزع میں کوئی فائدہ نہیں۔ موت اپنے پہلے سے آسان اور اپنے بعد سے مشکل ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کو یاد کرو، تمہاری مصیبت چھوٹی معلوم ہو گی۔ اللہ تمہارے اجر کو بڑا کرے۔ [5] ایک بچے کے انتقال پر عمر رضی اللہ عنہ کو تعزیت کرتے ہوئے فرمایا: اللہ تعالیٰ آپ کو اس کا عوض عطا کرے۔[6] آپ لوگوں کو ظلم، بد عہدی اور مکر و فریب سے منع کرتے تھے اور فرماتے: تین چیزیں جس کے اندر ہوں گی اس کے لیے وبال جان ہوں گی: ظلم، بدعہدی اور مکرو فریب۔[7]
Flag Counter