(۲) مرتدین سے جہاد ارتداد کی اصطلاحی تعریف اور ارتداد سے روکنے والی بعض آیات ۱۔ ارتداد کی اصطلاحی تعریف: امام نووی رحمہ اللہ ارتداد کی تعریف میں فرماتے ہیں: نیت یا کفریہ قول یا فعل کے ذریعہ سے اسلام کا انکار کر دینا خواہ مذاق کے طور پر یہ بات کہی ہو۔ عناد یا اعتقاد کی بنیاد پر۔ لہٰذا جس نے خالق کی یا رسولوں کی نفی کی یا کسی رسول کی تکذیب کی، یا بالاجماع حرام چیز جیسے زنا کو حلال قرار دیا، یا اس کے برعکس بالاجماع حلال کو حرام قرار دیا، یا مجمع علیہ وجوب کی نفی کی، یا اس کے برعکس مجمع علیہ عدم وجوب کو واجب قرار دیا، یا کفر کا عزم کیا یا اس میں تردد کیا، وہ کافر ہو گیا۔[1] اور علیش مالکی نے اس کی تعریف یوں بیان کی ہے: کسی مسلمان کا قول صریح یا ایسے قول و فعل کے ذریعہ سے کافر ہوجانا جو کفر کے متقاضی ہوں۔[2] اور امام ابن حزم رحمہ اللہ مرتد کی تعریف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ہر وہ شخص جو مسلمان ہو اور دیگر تمام ادیان سے بری ہو پھر اس کے بارے میں ثابت ہو جائے کہ وہ اسلام سے پھر گیا اور اہل کتاب (یہود ونصاریٰ) یا غیر اہل کتاب کے دین میں داخل ہو گیا یا بے دین ہو گیا۔[3] اور عثمان حنبلی نے مرتد کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا: مرتد لغت میں لوٹنے والے کو کہتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَلَا تَرْتَدُّوا عَلَىٰ أَدْبَارِكُمْ (المائدۃ: ۲۱) ’’اپنی پشت کے بل روگردانی نہ کرو۔‘‘ شریعت میں مرتد اس شخص کو کہتے ہیں جو اسلام لانے کے بعد وہ کام کرے جس سے کفر لازم آتا ہو۔[4] |
Book Name | سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | شمیم احمد خلییل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 512 |
Introduction |